• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹیوں کو میراث سے محروم کرنا

استفتاء

میرے پردادا کا ایک سوتیلا بھائی تھا،مقامی روایت کے مطابق والد کی جائیداد دونوں میں بانٹ دی گئی، میرے پردادا  کی غالباً ایک سگی بہن تھی اور ان کے سوتیلے بھائی کی سگی بہنیں زیادہ تھیں۔

میرے پردادا کے چھ بیٹے تھےاور غالباً ایک بیٹی تھی۔ ان کی جائیداد بھی چھ بیٹوں میں تقسیم ہوئی اور بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا گیا۔

میرے دادا لاہور آگئے، جہاں انہوں نے محنت مزدوری کی اور ان کے تین بھائی ان کے ساتھ شراکت دار ہوگئے۔دو بھائی گاؤں میں ہوتے تھے اور دو لاہور میں لیکن دونوں کاروبار الگ الگ کرتے تھے۔ میرے والد محترم نے سارا کاروبار سنبھالا ہوا تھا،انہوں نے پیسے بھی کمائے اور جائیدادیں بھی بنائیں اور گاؤں کا سارا خرچہ بھی والد صاحب کے کاروبار سے چلتا رہا۔ جب دادا کا دیگر تین بھائیوں کے ساتھ بٹوارہ ہوا تو جرگہ نے فیصلہ دیا کہ چونکہ لاہور کی جائیداد اور مال و دولت میرے والد کا کمایا ہوا ہے اس لئے لاہور میں جو مال و متاع ہے اس میں میرے والد کو پانچواں حصہ دیا جائے اور گاؤں کی جائیداد وغیرہ چار حصوں میں تقسیم کی جائے۔ ایسا ہی کیا گیا۔

میرے والد کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں، دادا جی نےاپنا ترکہ اپنی زندگی میں تقسیم کیا تو والد محترم نے بھی حصہ مانگا لیکن دادا جی نے کہا کہ تمھیں پہلے ہی کافی کچھ مل چکا ہے اس لئے آپ حصہ نہ مانگو، والد صاحب نے اسی پر اکتفا ءکیاجس کے بعد دادا جی نے بیٹیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے لاہور میں اپنی جائیداد اور مال دولت اپنے دو بیٹوں میں تقسیم کردی جبکہ گاؤں میں ملنے والی جائیداد وغیرہ کو میرے والد سمیت تینوں بیٹوں کے نام کردیا۔ یہ سب کچھ دادا جی نے  اپنی زندگی میں کیا۔

ہم سات بھائی اور ہماری پانچ بہنیں تھیں ہماری والدہ اور ایک بہن والد محترم کی وفات سے پہلے انتقال کرگئی تھیں۔ والد محترم نے اپنی زندگی میں اپنی وراثت ہم سات بھائیوں میں تقسیم کردی اور اس وقت پانچوں بیٹیوں کو پچاس، پچاس ہزار روپے نقد رکھ دیئے یعنی ان کو پچاس پچاس ہزار دینا طے کیا۔ والد صاحب نے جائداد میں اپنے لئے حصہ نہیں لیا، تاہم نقد مال میں انہوں نے اپنا حصہ رکھا۔

چونکہ والد صاحب کا وسیع کاروبار تھا تو ان کی رقوم کی وصولی میں کرتا رہا اور جیسے جیسے وصولیاں ہوتی رہیں میں بھائیوں میں تقسیم کرتا رہا،بہنوں کے لئے طے کردہ پچاس پچاس ہزار روپے بھی میں نےدے دیے،انتقال کرنے والی بہن کی رقم ان کے تمام بچوں میں برابر تقسیم کردی۔  والد صاحب کے حصے کی رقم میرے پاس جمع ہوتی رہی۔

والد کے وفات کے بعد جو بقایا رقوم وصول ہوئیں وہ میں ، ہم سات بھائیوں میں تقسیم کرتا رہا،، جبکہ والد کی پہلے سے جمع رقم میرے پاس ہی رہی بلکہ میں نے ایک پلاٹ خریدا تو وہ رقم بھی اس میں دے دی۔

ہماری روایت کے مطابق والدین زندگی کے آخری ایام میں جس کسی کے بھی پاس ہوں تو والد کے حصے کی رقم اسی کی تصور کی جاتی ہے، کیونکہ کھانا، پینا علاج معالجہ سب ان ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ والد صاحب کے حصے کی نقد رقم جو میرے پاس تھی اور ان کے حصے کا کرایہ جو میرے ساتھ رہنے والے دوسرے بھائی کے پاس رہا، باقی بھائیوں نے ہم سے نہیں مانگا۔

اس صورت حال کے پیش نظر میرے چند سوالات ہیں۔

پہلا سوال: اس صورت حال میں کہ جب میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنی وراثت بیٹوں میں تقسیم کردی تھی تو کیا ان کے وفات کے بعد بیٹیوں کا ان کے تقسیم کئے گئے ترکہ (رقم اور جائیداد) میں حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

اگر بنتا ہے تو میں انفرادی طور پر  اپنے حصہ میں سے ان کا حصہ کس حساب سے نکال کردوں؟

دوسرا سوال: ہماری ایک بہن کا والد محترم کی وفات کے بعد انتقال ہوا اس کی کوئی اولاد نہیں ہے اس کو زندگی میں ہی میں تھوڑی بہت رقوم دیتا رہا اس کو اور شوہر کو حج پر بھیجنے کے لئے رقم بھی دی جب ان کا قرعہ نہ نکلا تو وہ رقم واپس کرنے آئے تو میں نے انہیں کہا کہ آپ کے حصے کی رقم ہے آپ  اپنے پاس رکھیں یا کاروبار میں انویسٹ کریں یا حج کے لئے جمع کرائیں یہ آپ کی مرضی ہےجس کے بعد انہوں نے ایک سال تک اس رقم سے کاروبار کرکے کمائی بھی کی اور بعد میں حج بھی کرلیا،اس بہن کا معاملہ کیسے نمٹے گا؟

تیسرا سوال:  والد صاحب نے چونکہ دادا جی سے لاہور میں اپنا حصہ وصول نہیں کیا بلکہ دادا جی کو صرف گاؤں والی جائیداد وغیرہ میں  سے حصہ دیا گیا تو اس صورت میں دونوں پھوپھیوں کا والد سے کیا مطالبہ یا حصہ ہوسکتا ہے؟

اگر پھوپھیوں کا کوئی حصہ بنتا ہے تو میں اپنے انفرادی حصے میں سے انہیں کس حساب سے دوں؟

یا اگر میں انہیں ان کی رضامندی سے کچھ رقم دے دوں تو کیا میری اور والد محترم کی جان خلاصی ہوجائے گی؟

چوتھا سوال :میرے حصے میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ روپے نقد آئے تھے اور جو  جائداد آئی تھی اس میں سے کچھ کرائے پر  ہے جس کا کرایہ میں وصول کررہا ہوں، والد کا گھر ہم تینوں بھائیوں کے حصے میں آیا کچھ عرصہ بعد ایک بھائی سے میں نے اس کا حصہ خرید لیا۔

میری خواہش ہے کہ میں والد کی جانب سے دیا گیا گھر اور کوئی ایک دوسری جائیداد اپنے پاس رکھوں اور باقی بہنوں میں ( یا پھوپھیوں میں بھی) تقسیم کردوں جو میرے پاس رہ جانے والی جائیداد سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔  تو کیا اس صورت میں میں اور میرے والد بیٹیوں اور بہنوں کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں گے؟

اور والد کی وفات سے پہلے اور والد کی وفات کے بعد انتقال کرجانے والی بہنوں کا  کیا کیا جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ آپ کے والد اور دادا نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو جو کچھ دیا وہ ان کی ملکیت ہوگئی لیکن ان کا بیٹیوں کو میراث سے محروم کرنا یا بہت کم دینا بہت گناہ کی بات ہے۔اس لیے مذکورہ صورت میں بہتر تو یہی ہے کہ تمام ورثاء اپنے والد اور دادا کے مذکورہ گناہ کو ختم کرنے کے لیے اپنی بہنوں اور پھوپھیوں کو حصہ دےدیں لیکن اگر کوئی اور اس کے لئے تیار نہ ہو اور آپ اپنی طرف سے اپنی بہنوں اور پھوپھیوں  کو کچھ دینا چاہیں تو بہت اچھی اور قابل تعریف بات ہے۔ اس کے لیے آپ نے 4 نمبر کے تحت جو صورت لکھی ہے وہ بہت مناسب ہے اس سے (اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ) آپ کے دادا اور والد صاحب سے جو کوتاہی ہوئی ہے  اس کی تلافی ہو جائے گی۔

نوٹ: آپ کی جس بہن کا آپ کے والد کے بعد انتقال ہوا اور اس کی زندگی میں آپ ان کو کچھ نہ کچھ دیتے رہے خصوصاً حج کے موقع پر ان کو جو رقم دی ہے وہ کافی ہے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔اور آپ کی جو بہن آپ کے والد سے پہلے فوت ہوئیں ان کا حصہ آپ ان کی اولاد کو دے سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved