• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میراث کی تقسیم

استفتاء

ہمارا مکان بک چکا ہے 58 لاکھ کا، سارے خرچے نکال کر ہمارے پاس 56 لاکھ بچے ہیں اور ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں یعنی تین لڑکے اور تین لڑکیاں جو حصے دار ہیں اور سب موجود ہیں ہمارے امی اور ابو دونوں ہی انتقال کر چکے ہیں،والدہ والد سے پہلے انتقال کر گئی تھیں، آپ یہ بتائیں کہ:

1۔ موجودہ حالات اور وقت کے مطابق لڑکے کا کتنا حصہ ہوگا اور لڑکی کا کتنا حصہ ہوگا؟

2۔ اور کیا ہم دو بھائی بوقت مجبوری اپنے حصے کے مطابق اپنے رہنے کے لیے گروی مکان لے سکتے ہیں؟

3۔ ہمارا ایک بھائی ہمارے اس مکان کو جو ہم نے سیل کیا ہے تین لاکھ میں گروی پھنسا کر چلا گیا تھا وہ رقم اس نے نہیں  بلکہ میرے والد نے اتاری، بھائی نے والد صاحب سے یہ رقم بطور قرض لی تھی ،ہم والد صاحب کو زندگی میں کہتے رہے کہ ایک سٹام کے اوپر یہ بات لکھ دیں کہ مرنے کے بعد یہ رقم تمام ورثاء میں تقسیم کی جائے ،لیکن وہ یہ لکھنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے،اب کیا ہم وہ رقم لینے کے حق دار ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ رقم میں سے بھائیوں میں سے ہر ایک کو 1244445روپے،اور بہنوں میں سے ہر ایک کو622222 روپے ملیں گے۔

2۔رہائش کے لیے گروی مکان لینا جائز نہیں ہے۔

3۔اگر آپ کے بھائی نے یہ رقم آپ کے والد سے بطور قرض لی تھی تویہ بھی میراث میں شامل ہو گی اور تمام ورثاءاس کے حق دار ہوں گے۔

ردالمحتار(10/86)میں ہے:(قوله وقيل لا يحل للمرتهن) قال في المنح: وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء ‌سمرقند أنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فيكون ربا، وهذا أمر عظيم۔۔۔ قال ط: قلت والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط، لأن المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved