• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مستحق افراد اور مختلف اداروں کو زکوۃ دینا

استفتاء

T.S ***مارکیٹ میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

T.S کے یہاں زکوٰۃ کی ادائیگی مستحقین حضرات کی تحقیق کر کے منصور بھائی ہی کر رہے ہوتے ہیں۔

T.S کی طرف سے مفتیان کرام سے مشاورت کر کےمستحقین افراد اورمختلف اداروں کو بھی زکوٰۃ دی جاتی ہے، T.S کی جانب سے زکوٰۃ کی ادائیگی کیش کی صورت میں کی جاتی ہے ۔

T.S کی جانب سے ملازمین کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جاتی ، T.S والےاپنے ملازمین کی معاونت نفلی صدقہ کی رقم سے کرتے ہیں

T.S کی جانب سے مدارس کی طرف سے آئے ہوئے نمائندوں کو بھی زکوٰۃ کی رقم دی جاتی ہےاور انہیں یہ بتادیا جاتاہے کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے اس کے علاوہ حقیقت میں مدرسہ کے ہونے یا نہ ہونے کی کوئی تحقیق نہیں کی جاتی۔

۱۔مستحق حضرات کو زکوۃ کی ادائیگی کے مذکورہ طریقہ کار کا کیا حکم ہے؟اور ملازمین کو زکوۃ نہ دینا کیسا ہے ؟

۲۔مدارس کی طرف سے آنے والے نمائندوں کو بغیر تحقیق کیے زکوۃ ادا کرنا شرعا کیساہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔اداروں اور مستحق افراد کی تحقیق کرکے اور مفتیان کرام سے مشورہ کرکے زکوۃ  کی ادائیگی کرنے کاطریقہ کاردرست ہے ۔

اگر ملازمین کے مستحق ہونے کا علم ہوجائے یا تحقیق سے معلوم ہوجائے تو ملازمین کو بھی زکوۃ دینا جائز ہے اور ان کو   زکوۃ  دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی بشرطیکہ  زکوۃ کی رقم انہیں تنخواہ کی مد میں نہ دی جائے  ،نیز  ملازمین کے ساتھ زکوۃ کے علاوہ صدقہ کی رقم سے معاونت کرنا بھی درست ہے۔

نوٹ:اگر کوئی ملازم مستحق زکوۃ نہ ہوتو اگر چہ اسے نفلی صدقہ دینا درست ہےتاہم اس صورت میں دینے والوں کو صدقہ کے فضائل   حاصل نہ ہونگے۔

۲۔مدارس کی طرف سے آنے والے نمائند وں  سے بھی تحقیق کرکے انکو زکوۃ دینا درست ہے  بغیر تحقیق کے   ان نمائندوں کو  زکوۃدینا  درست نہیں ، تحقیق کا مطلب یہ  ہےکہ ان کے ظاہری حال سے یہ گمان غالب ہو کہ یہ شخص حقیقت میں مدرسہ کا نمائندہ ہے ،اس سے زیادہ حقیقی حالات کی تحقیق اور تفتیش ضروری نہیں ۔

ردالمحتار(۲/۳۴۰)

۔۔۔یجوز دفع الزکاۃ لطالب العلم وان کان لہ نفقۃ اربعین سنۃ۔

 ردالمحتار(۲/۳۴۴)

ویشترط ان یکون الصرف تملیکا لا اباحۃ کما مر لایصرف الی بناء مسجد ۔۔۔۔وکل مالاتملیک ۔

الدرالمختار:(۲/۳۳۹)

باب المصرف أی مصرف الزکاۃ والعشر ۔۔۔۔(ھو فقیر وھو من لہ ادنی شئی )أی دون النصاب أو قدر النصاب غیر نام مستغرق فی الحاجۃ ۔

البحر الرائق(۲/۲۲۶)

إذا وكل رجلا بدفع زكاة ماله ونوى المالك عند الدفع إلى الوكيل فدفع الوكيل بلا نية فإنه يجزئه؛ لأن المعتبر نية الآمر؛ لأنه المؤدي حقيقة، ولو دفعها إلى ذمي ليدفعها إلى الفقراء جاز لوجود النية من الآمر ولو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز۔

الہندیہ(۱/۱۹۰)

اذاشک وتحری فوقع فی اکبر رأیہ انہ محل الصدقۃ فدفع الیہ أو سأل منہ فدفع أو رآہ فی صف الفقرآء فدفع فان ظھر انہ محل الصدقۃ جاز بالاجماع وکذا ان لم یظھرحالہ عندہ وأما اذا ظھر انہ غنی أو ھاشمی أو کافر أو مولی الھاشمی أو الولدان أو المولودون أو الزوج أو الزوجۃ فإنہ یجوزوتسقط عنہ الزکاۃ فی قول أبی حنیفۃ و محمد رحمھما اللہ تعالی ولو ظھر أنہ عبدہ أو مدبرہ أو ام ولدہ أو مکاتبہ فإنہ لایجوز علیہ أن یعیدھا بالاجماع وکذا المستسعی عند أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی ھکذا فی شرح الطحاوی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved