• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ کی تاریخ سے پہلے حساب کرنا

استفتاء

T.S *** مارکیٹ میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

T.S کیجانب سے  زکوۃ کا حساب شعبان میں کیا جاتا ہے  اور اس حساب سے تمام شرکاء کی طرف سے زکوۃ ادا کردی جاتی ہے البتہ شرکاء کی وہ  زکوۃ جو کاروبار کے علاوہ ہے  اس کا حساب ہر  شریک فردا فردا رمضان میں کرتا ہے ۔

کیا کمپنی کے شرکاء کا کاروبار میں اپنے  حصہ کی زکوۃ کا حساب  شعبان  میںکرنا  اور اپنے دوسرے اموال  کی زکوۃ   کا حساب رمضان  میں  کرنا درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زکوۃ کا حساب کرنے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ جب سال پورا ہورہا ہو اس وقت تمام اموال زکوۃ کا حساب کیا جائے لہذا اگر کمپنی کے شرکاء کی زکوۃ کا سال شعبان میں پورا ہورہا ہو تو کل مال کا حساب شعبان میں کرنا چاہیے اور اگر رمضان میں پورا ہورہا ہوتو کل مال کا حساب رمضان میں کرنا چاہیےتاہم اگر سال پورا ہونے سے پہلے حساب کرکے زکوۃ دیدی تویہ بھی جائزہےاور ایسی صورت میں سال پورا ہونے پر حساب کرکے دیکھ لیا جائے کہ کہیں زکوۃ کم تو ادا نہیں ہوئی اگر کم ادا ہوئی ہو تو اس  کمی کے بقدر مزید زکوۃ ادا کردی جائے اور اگر زیادہ ادا ہوگئی ہو تو اس زیادہ کو نفل شمار کرلیا جائے یا اگلے سال کی زکوۃ میں شمار کرلیاجائے۔

فتاوی شامی(۲/۲۹۳)

(قولہ:ولو عجل ذو نصاب)قید بکونہ ذو  نصاب ؛لأنہ لو ملک  أقل  منہ  فعجل  خمسۃ  عن مأتین ، ثم تم  الحول علی مأتین لایجوز۔

الھندیۃ(۱/۱۷۶)

ولو عجل زکاۃ ألفین ولہ ألف فقال ان أصبت ألفااخری قبل الحول فھی عنھما وإلا فھی عن ھذہ الالف فی السنۃ الثانیۃ أجزأہ رجل لہ أربعمائۃ درھم فظن ان عندہ خمسمائۃ فادی زکاۃ خمسمائۃ ثم علم فلہ ان یحسب الزیادۃ للسنۃ الثانیۃ۔

دررالحکام(۱/۱۸۰)

(عجل ذو نصاب لسنين أو لنصب جاز) قد عرفت أن سبب وجوب الزكاة المال النامي، والحولان شرط لوجوب الأداء وقد تقرر في الأصول أن السبب إذا وجد صح الأداء وإن لم يجب، فإذا وجد النصاب صح الأداء قبل الحولين، فإذا كان له نصاب واحد كمائتي درهم مثلا فأدى لسنين جاز حتى إذا ملك في كل منها نصابا أجزأه۔

فتاوی محمودیہ(۹،۴۶۸)

سوال:زکوۃ کے سالانہ حساب سے بےغم رہنےکی غرض سے اگر زکوۃ کی نیت سے مساکین کو نقد اورغیر نقد اتنا دیاجاتارہےجو زکوۃ کے حساب سے بگمان غالب بلکہ یقینا زیادہ ہوتو کیا اس طرح بھی ادائیگی زکوۃ سے سبکدوشی ہوسکتی ہے

جواب:جس قدر بنیت زکوۃ غرباء کو وقتا فوقتا دیا جائےاور مجموعہ زکوۃ واجب ہوجائےتو زکوۃ ادا ہوجائےگی باربار اگر حساب میں الجھن ہوتی ہو تو ایک دفعہ حساب لگاکرمقدار واجب کو الگ الگ رکھ لیا جائےاس میں سے دیدیا کریں،حساب نہ کرنے سے اندیشہ ہے کہ اگر کبھی کم ہوئی تو بری ذمہ نہ ہوگا۔

جواہرالفقہ(۳/۲۳۵)

مال دار شخص کئی سال کی زکوۃ پیشگی دیدے تو یہ بھی جائز ہےالبتہ اگر کسی سال مال بڑھ گیاتو اس بڑھے ہو ئےمال کی زکوۃ علیحدہ دیناہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved