• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوٰۃ میں کھانا کھلانا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری فیکٹری ہے جس میں تقریبا 50,60 ملازم کام کرتے ہیں ۔ ہماری سالانہ زکوٰۃ بھی بنتی ہے جس کے مصرف کے طور پر ہم نے یہ سوچا کہ ملازموں کے لیے تین وقت کے   مفت کھانے کا بندوبست کر دیا جائے جس کا تعلق اُن کی سیلری کے ساتھ نہیں ہو گا ،بلکہ اُن کی سیلری حسبِ سابق ہی رہے گی۔ لہذا انتظام کر دیا گیا اور کئی سال سے ایسا چل رہا ہے کہ ہمارے تقریبا ماہانہ 1 لاکھ روپے اس مد میں صرف ہوتے ہیں جو کہ ہم زکوٰۃ کی نیت سے صرف کرتے ہیں ۔ صورت یہ ہوتی تھی کہ کھانے کا نگران ان کو مطبخ میں بلاتا اور وہاں کھانا کھلا دیتا اور کبھی وہ اپنا کھانا اپنے کمروں میں بھی لے جاتے تھے لیکن اس میں نگران کو مشکل ہوتی تھی تو انتظامی طور پر یہ طے کر دیا کہ مطبخ میں آکر ہی کھائیں کمرے میں نہیں لے کر جا سکتے۔اس طرح کہ اب نہ تو  ان کو کنٹین  کے علاوہ کہیں اور کھانا لے جانے کی اجازت ہے  اور نہ وہ فیکٹری  سے باہر کھانا لے کر  جاسکتے ہیں، کھانا ہو تو صرف کنٹین میں کھا سکتے ہیں ساتھ کہیں بھی نہیں لے کر جا سکتے۔ کیا ایسا کرنے کی اجازت ہے ؟ اور اس میں کن کن چیزوں کی رعایت ضروری ہو گی ؟

صحیح طریقہ کی طرف راہنمائی فرما دیں کہ کس طریقہ سے ہم یہ کام کریں ؟

درست کرنے کے لیے جن سابقہ شرائط کو ختم کرنا ہو اور جن کی آئندہ رعایت رکھنی ہو ہم اس کے لیے تیار ہیں ۔

اور اگر یہ طریقہ درست نہ ہو تو کیا  سابقہ سالوں کی زکوۃ دوبارہ ادا کرنا ہو گی یا نہیں ؟

تنقیح:(1) ملازمین کی تنخواہ چونکہ 20 ہزار ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ  مستحق زکوٰۃ ہونگے ۔  ملازمین سےباقاعدہ نہیں پوچھا جاتا  کہ وہ مستحق زکوٰۃ ہیں یا نہیں۔

تنقیح:(2)ہم  نے کسی بندے کو کنٹین کا ٹھیکہ دیا ہوا ہے اور اس  کو بتایا بھی ہے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم  سے  ہم کھانا کھلا رہے  ہیں  وہ سبزی وغیرہ سارا سامان   خود لاتا ہے ہمیں ایک بندہ کا کھانا 57 روپے میں دینا طے ہوا  ہے ہم ہر ہفتے اس کو گزشتہ  ہفتے کا حساب کرکے پیسے   دے دیتے ہیں مثلاً 60 بندوں نے تین وقت اگر کھانا کھایا تو ہم 57 کے حساب سے ضرب  دے کر رقم اس کو  دے دیتے ہیں۔  اور ملازمین کو رکھتے وقت یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہماری فیکٹری  میں آپ کو کھانا مفت ملے گا جس کا آپ کی تنخواہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یعنی تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتا ۔ اگر ہم نہ دیں تو وہ اس وجہ سے  کہ  یہ تنخواہ  کا حصہ ہے   ہم سے اس کا  مطالبہ نہیں کر سکتے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زکوٰۃ ادا کرنے کا  مذکورہ طریقہ درست نہیں  کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی  کیلئے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے  کہ زکوٰۃ کی مد میں جو چیز مستحقِ زکوٰۃ کو دی جائے وہ اسے مالکانہ  طور پر دی جائے  اور مالکانہ طور پر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز اسے اس طرح دیدی جائے  کہ وہ اس کا جو چاہے  کرے  مثلاً کھانا دیا ہے تو وہ چاہے  تو اس کھانے کو کھائے  اور چاہے تو اپنے گھر لے جائے اور چاہے تو کسی اور کو دیدے   اور چاہے تو پھینک دے ۔ الغرض اسے اس کا کلی اختیار ہو اور اس کلی اختیار کا اسے علم بھی ہو۔ لہذا جتنے سال آپ نے مذکورہ طریقے سے زکوٰۃ ادا کی ہے   اتنے سالوں کی زکوٰۃ دوبارہ ادا کریں۔ اور آئندہ کیلئے یہ طریقہ اختیار کرسکتے ہیں کہ ہر ملازم کا کھانا اس کے اپنے برتن  میں یا اپنے کسی ڈسپوزبل برتن میں اسے دیدیا جائے اور اسے کلی اختیار دیدیا جائے کہ وہ اس کھانے کا جو چاہے کرے۔

نوٹ:مستحق زکوٰۃ کا پتہ لگانے کیلئے اتنی بات کافی نہیں کہ اس کی ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے ہے لہذا وہ مستحق ہی ہوگا، بلکہ مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر کوئی ایسی چیز نہ ہو جو اس کی حوائج اصلیہ / ضروریات اصلیہ سے زائد  ہو خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو  مثلاً سونے کی یا چاندی کی یا خالی پلاٹ کی  یا کسی اور چیز کی شکل  میں ہو ۔ مذکورہ تفصیل یا ملازم سے صاف طور پر پوچھ لی جائے یا موٹی موٹی معلومات لے کر اس کے حالات کا غور وفکر کرکے اندازہ لگایا جائے۔

 

حاشیۃالطحطاوی  علی مراقی الفلاح (714)میں ہے:

وأخرج بالتمليك الإباحة فلا تكفي فيها فلو أطعم يتيما ناويا به الزكاة لا تجزيه إلا إذا ‌دفع ‌إليه ‌المطعوم.

تنویر الابصار مع درالمختار(203,204/3) میں ہے:

(هي) لغة: الطهارة والنماء، وشرعا: (تمليك)

‌خرج ‌الاباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم، كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض.

تنویر الابصار مع درالمختار(341/3) میں ہے:

ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة

قال ابن عابدين: (قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا ‌بطريق ‌التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي.

امداد الفتاوی(79/2) میں ہے:

سوال:   ایک شخص نے ایک یتیم خانہ قائم کیاہے اور وہ مسلمانوں سے زکوٰۃ ،صدقۂ فطر ،چرم قربانی کا روپیہ لیکر ان یتیم بچوں کے واسطے کھانے کپڑے کا انتظام بطور خود کرتا ہے بچوں کے ہاتھ میں روپیہ پیسہ نہیں دیتا ہے اور نہ وہ روپیہ زکوٰۃ کا کسی اور کو دیکر حیلہ تملیک کرتا ہے۔ دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ ایسا روپیہ کسی مستحق زکوٰۃ کو تملیک کراکر یتیم بچوں کے واسطے خرچ کرنا چاہئے ورنہ زکوٰۃ دینے والوں کی ادانہ ہوگی، پس ایسی صورت میں کیا کر نا چاہئے؟

الجواب: تملیک ان سب رقموں میں شرط ہے خواہ روپیہ کی ہو یا روپیہ سے جو چیز خریدی جاوے اس چیز کی ہو مثلاًکپڑا دیدیا  مگر اس میں چند شرطیں ہیں اوّل یہ کہ اہل رقم کا اذن ہو اس خریداری کے لیے۔ دوسرے یہ کہ وہ چیز قیمت میں اس رقم کے برابر ہو۔ تیسرے یہ کہ ان بچوں کی ملک کی جاوے مثلاً اگرکھانا بٹھلاکر کھلاوے تو ادا نہ ہوگی ، نیز لکڑی وغیرہ کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔

فتاوی محمودیہ (601/9) میں ہے :

سوال :جس مدرسے میں زکوۃ کے پیسے دیے جاتے ہیں تومستحقِ زکوٰۃ کو مطبخ میں سے جو کھانا کھلایا جاتا ہے وہ امیر غریب سب کو ساتھ بٹھاکر کھلانے میں زکوۃ کی ادائیگی میں کوئی قباحت تو نہیں آئے گی ؟

جواب :زکوۃ کا کھانامستحق کو بطورِ تملیک دینا لازم ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہو کہ اتنی مقدار میری ملک ہے خواہ میں کھاؤں یا فروخت کروں یا کسی کو کھلاؤں اور ایک ساتھ سب کو بٹھاکر کھلانے میں یہ بات نہیں ہوتی۔

خیر الفتاویٰ(407/3) میں ہے:

الجواب:  فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم لأنه بالدفع إليه بنية الزكوة يملكه فيصير آكلا من ملكه بخلاف ما إذا أطعمه منه(شامي)

جزئیہ مذکورہ سے  معلوم ہوا کہ اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے تو زکوۃ ادا نہ ہوگی کیونکہ یہ اباحت ہے تملیک نہیں ۔اور اگر کھانا اس کو بنیت تملیک دے دیا ہے خواہ وہ کھائے خواب بیچے ،تو ایسی صورت میں زکوۃ ادا ہوجائیگی ۔الحاصل بصورت تملیک زکوۃ ادا ہو جائے گی اور بصورت اباحت ادا نہ ہوگی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved