• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سودی معاملہ میں معاہداورگواہ بننا

استفتاء

سائل ایک پلاسٹک مینوفیکچرنگ کمپنی میں بطور امپورٹ ایگزیکٹو (Import Executive) چار مہینے سے کام کررہا ہے۔ ہماری کمپنی کے مالکان کے پاس  مختلف شہروں میں  جائیدادیں ہیں جن میں ان کے ذاتی استعمال کے گھر اور فیکٹریاں ہیں جنہیں ان لوگوں  نے بینک میں رہن رکھوا کر دو بینکوں سے قرضہ لے رکھا ہے۔ اس قرضے میں مختلف سہولیات بھی شامل ہیں جن میں امپورٹ کیے گئے خام مال کے لیےL.C ( Letter of Credit) کی سہولت Fatr (Finance against Trust Receipt ) جس میں بینک صارف کی گزارش پر سپلائر  (Supplier) کو رقم ادا کرتا ہے جبکہ صارف یہ  رقم 180 یا 120 دنوں بعد Intrest (سود) کی شرح کے ساتھ بینک کو  ادا  کرتا ہے۔ میں بطور امپورٹ ایگزیکٹو  (Import Executive )کمپنی کے ان معاہدوں کو ترتیب دیتا ہوں اور ا سکے بعد جبکہ کمپنی کے مالک اس پر دستخط کردیتے ہیں تو میں بطور شاہد(گواہ)  اس کی (گواہی)Witness دیتا ہوں ا س دستاویز میں  باقی تمام شرائط کے ساتھ  شرح سود کی شرائط بھی شامل ہوتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ Fatr کی دستاویز کو میں ہی بناتا ہوں  اور اس پر بھی(گواہی)  شہادت دیتا ہوں۔ براہِ مہربانی مجھے اس بارے میں شرعی رہنمائی چاہیے کہ کیا میری آمدن جو ا س ملازمت سے حاصل ہوتی ہے وہ حلال ہے یا حرام ہے یا مشتبہ ہے؟ اگر یہ حرام ہے تو کیا ملازمت کو فوری  ترک کردینا چاہیے؟ جبکہ میرا نکاح بھی دسمبر 2022 کو ہونے والا ہے مگر اگر یہ ملازمت حرام ہے تو میں قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے  ان شاء اللہ اس ملازمت کو ترک کردوں گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

‌‌مذکورہ صورت میں صارف کا بینک کو قرض اضافی رقم کے ساتھ ادا کرنا سود ہےاور اس معاہدے کو ترتیب دینے سے اس سودی کام میں معاونت ہورہی ہے،چنانچہ جس طرح سودی لین دین حرام ہے ایسے ہی اس لین دین میں کسی قسم کی معاونت  اور گواہی دینا بھی حرام ہے،لہذا اس معاونت اور گواہی کی وجہ سے مذکورہ نوکری ناجائز ہے۔کوئی اور متبادل جائز نوکری  تلاش کریں  چاہے تنخواہ کچھ کم ہی ہو۔ اگر فورا مذکورہ نوکری چھوڑنا مشکل ہو تو متبادل ملنے تک مذکورہ نوکری کرسکتے ہیں لیکن ساتھ توبہ استغفار بھی کرتے رہیں۔اور جتنی آمدن ناجائز ہے اسے صدقہ کرنا ضروری ہے،اس کی تعیین اس طرح ہوگی کہ آپ اندازہ لگالیں کہ کتنے فیصد کام ناجائز کیا ہےاس حساب سے وہ رقم صدقہ کردیں چاہے تھوڑی تھوڑی کرکے صدقہ کریں۔

صحیح مسلم (2/1052)میں ہے:

عن ‌جابر قال:  لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء

فقہ البیوع (2/1064)میں ہے:

السابع اں يواجر المرء نفسه للبنك باں يقبل فيه وظيفةفقبول هذه الوظيفة حرام،  ذلك مثل التعاقد بالربوا اخذا و اعطاء او خصم الكمبيلات،  او كتابة هذه العقود او التوقيع عليها  اوتقاضي الفوائد الربويه  او دفعها او قيدها  في الحساب بقصد المحافظة عليها او ادارة البنك او ادارة فرع من فروعه فان الادارة مسئولة عن جميع نشاطات البنك التي غالبها حرام۔

ردالمحتار (7/307)میں ہے:

والحاصل أنه إن ‌علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه۔

ردالمحتار(9/77) میں ہے:

(قوله لا تصح الإجارة لعسب التيس) ؛ لأنه عمل لا يقدر عليه وهو الإحبال.

مطلب في الاستئجار على المعاصي (قوله مثل الغناء) بالكسر والمد الصوت، وأما المقصور فهو اليسار صحاح (قوله والنوح) البكاء على الميت وتعديد محاسنه (قوله والملاهي) كالمزامير والطبل، وإذا كان الطبل لغير اللهو فلا بأس به كطبل الغزاة والعرس لما في الأجناس: ولا بأس أن يكون ليلة العرس دف يضرب به ليعلن به النكاح.

وفي الولوالجية: وإن كان للغزو أو القافلة يجوز إتقاني ملخصا. (قوله يباح) كذا في المحيط.

وفي المنتقى: امرأة نائحة أو صاحبة طبل أو زمر اكتسبت مالا ردته على أربابه إن علموا وإلا تتصدق به، وإن من غير شرط فهو لها: قال الإمام الأستاذ لا يطيب، والمعروف كالمشروط اهـ. قلت: وهذا مما يتعين الأخذ به في زماننا لعلمهم أنهم لا يذهبون إلا بأجر ألبتة ط.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved