• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’دوطلاق ،دو طلاق ‘‘کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں**** حلفاً بیان کرتا ہوں کہ جو بات لکھوں گا سچ لکھوں گا، سچ کے علاوہ کچھ نہیں لکھوں گا۔

میں نے اپریل 2006ء میں شادی کی تھی، ہم دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی زندگی گذار رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازا۔ میں 2008ء میں روزی کے سلسلے میں دبئی چلا گیا۔ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد میرے گھر والوں نے میری بیوی کی شکایتیں شروع کر دیں کہ گھر میں لڑتی ہے، کسی کی کوئی بات برداشت نہیں کرتی۔ ہم چار بھائی ہیں اور اکٹھے رہتے تھے، ہماری والدہ حیات ہیں اور والد اس دنیا میں نہیں۔ میں تنگ آکر واپس آگیا، حالات کا جائزہ لیا۔ میری بڑی بھابھی اور میری بیوی آپس میں خالہ زاد تھیں، وہ الگ پارٹی بنا کر میری والدہ اور میری بہنوں کے ساتھ لڑتی تھیں، میں کچھ سمجھا کر مسئلہ کو سلجھا کر واپس چلا گیا، لیکن میری گھر والی کی طبیعت میں فرق نہیں آیا، میں دبئی چھوڑ کر واپس آگیا لیکن گھر میں لڑائی ختم نہ کر سکا حتیٰ کہ میری بیوی میرے پوچھے بغیر رشتہ داروں کے گھر چلی جاتی تھی۔ میں نے تنگ آکر 2013ء میں دو طلاقیں دے دیں، الفاظ یہ استعمال کیے: ’’تجھے دو طلاق، دو طلاق‘‘۔لیکن میرا دلی ارادہ اسے دو طلاق دے کر کچھ عرصہ جدا کرنے کا تھا۔ اس کے رشتہ داروں نے وہاں عالموں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’ دو طلاق، دو طلاق‘‘ مل کر چار طلاقیں ہو گئی ہیں لہذا تین طلاقیں پڑ گئی ہیں۔ میں تب سے پریشان تھا، اب میرے ایک دوست نے مشورہ دیا ہے کہ آپ دارالافتاء میں جائیں۔ اس لیے میں یہاں آیا ہوں۔ آپ میری رہنمائی فرمائیں میں اپنی بیوی کو واپس لانا چاہتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ’’ دو طلاق‘‘ کے بعد دوبارہ ’’ دو طلاق‘‘ کا لفظ کہنا پہلی دو طلاقوں کی تاکید ہے اور تاکید کی صورت میں اگر شوہر کی نئی طلاق کی نیت نہ بھی ہو تو پھر بھی عورت (بیوی) کے حق میں وہ نئی طلاقیں سمجھی جائیں گی۔ لہذا مذکورہ صورت میں عورت (بیوی) کے حق میں تین طلاقیں ہو گئی ہیں ، جن کی وجہ سے عورت (بیوی) کے لیے یہ حلال نہیں کہ شوہر کے ساتھ میاں بیوی والے تعلقات رکھے۔ بلکہ وہ کسی نہ کسی طرح مزید طلاق لے کر یا عدالت سے تنسیخ نکاح کی ڈگری حاصل کر کے سابقہ شوہر سے خلاصی حاصل کرے۔

فتاویٰ شامی (4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين. وفي الشامية تحته "(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق، وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ما قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب، كذا في كافي الحاكم (قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء، وكذا إذا اطلق أشباه: أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا لأن الأصل عدم التأكيد.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] .

فتاویٰ شامی (5226/4) میں ہے:

قال في الفتح: و التأكيد خلاف الظاهر و علمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved