• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقناموں کے بعد غصے میں تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

میں نے اپنی بیوی کو ڈیڑھ سال پہلے ایک طلاق کا نوٹس بھیجا تھا جس پر یہ لکھا تھا کہ میں طلاق اول دیتا ہوں۔ اب وہ نوٹس موجود نہیں۔ اس کے چھے دن بعد ہماری صلح ہوگئی۔ پھر ہم میاں بیوی کی طرح رہنا  شروع ہوگئے۔ اس کے دو مہینے بعد پھر ہماری لڑائی ہوئی اور میں نے نوٹس تیار کروایا جس کی عبارت یہی تھی کہ میں طلاقِ اول دیتا ہوں۔ اس کی کاپی بھی موجود نہیں اور نہ کہیں سے مل سکتی ہے۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ اول دوم سوم نوٹس بھیجیں گے تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔

اس کے سترہ، اٹھارہ دن بعد ہماری پھر صلح ہوگئی جس کا طریقہ یہ ہوا کہ میرے گھر والے گئے اور میری بیوی کو لے آئے اور ہم رہنے لگے۔

اس کے بعد ایک دفعہ ہماری لڑائی ہوئی، میری بیوی نے مجھے غصہ دلانے والی باتیں کیں کہ آپ کے والد نے بھی طلاق دے دی تھی آپ بھی دے دو گے تو کیا ہوجائے گا۔ میری پھوپھی کو جس کا انتقال ہوچکا تھا گالی دی میں طیش میں آگیا اور انتہائی غصہ میں بیوی کو کہہ دیا کہ ’’طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘‘۔

اب اس کے بعد تقریبا دو ہفتے بعد میں نے تیسرا نوٹس جو کہ لف ہے وہ بھیجا اور اس کی تفصیل بھی لکھ دی ہے۔ اس کے مطابق فتویٰ دیں کہ کیا ہم دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ غصہ کی کیا تفصیل ہے؟

جوابِ وضاحت: میں انتہائی طیش میں تھا، میرے ہاتھ میں پلاس تھا جس سے میں بیوی کو مارنے لگا تھا۔ وہاں موجود دو گواہوں نے بھی کہا کہ ہم نے ایسا غصہ اس میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔اس کے علاوہ کوئی خلافِ عادت کام نہیں ہوا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:

پہلی طلاق ڈیڑھ سال پہلے بھیجے گئے طلاقنامے کی اس عبارت سے واقع ہوئی کہ ’’میں طلاق اول دیتا ہوں‘‘ چونکہ یہ طلاق رجعی تھی جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر رجوع کرنے سے رجوع ہوجاتا ہے اور نکاح باقی رہتا ہے لہٰذا شوہر نے جب عدت کے اندر رجوع کیا تو نکاح باقی رہا لیکن اس کے بعد شوہر کے لئے دو طلاق کا حق باقی رہ گیاکیونکہ رجعی طلاق دینے کے بعد رجوع کرنے سے طلاق کا اثر تو ختم ہوجاتا ہے لیکن طلاق بالکلیہ ختم نہیں ہوتی بلکہ شمار میں رہتی ہے۔

پھر اس کے دو مہینے بعد شوہر نے طلاق کا دوسرا نوٹس  بھیجا جس میں لکھا تھا کہ ’’طلاق اول دیتا ہوں‘‘ تو اس سے دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی۔ اور اس دوسرے طلاقنامے میں طلاق اول سے مراد یہ نہیں کہ تین طلاقوں میں سے پہلی طلاق، کیونکہ پہلی طلاق تو وہ دے چکا تھا اس لئے یہاں اول سے اول ما بقی من الطلقات مراد ہے یعنی بقیہ دو طلاقوں میں سے اول طلاق۔ اور دوسری طلاق بھی چونکہ رجعی تھی اس لئے عدت میں رجوع کرنے سے نکاح باقی رہا۔

اس کے بعد جب شوہر نے غصے میں تین مرتبہ طلاق دی تو اس وقت اگرچہ شوہر انتہائی غصہ میں تھا لیکن یہ غصہ کی ایسی کیفیت نہیں تھی جس میں شوہر کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے اور نہ ہی اس سے خلافِ عادت کوئی قول یا فعل صادر ہوا۔ لہٰذا جب شوہر نے تین مرتبہ ’’طلاق دیتا ہوں‘‘ کہا تو پہلی مرتبہ کہنے  سے تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔ دوسری اور تیسری مرتبہ ’’طلاق دیتا ہوں‘‘ کہنا لغو ہوگیا۔  اسی طرح جب اس کے بعد طلاق کا تیسرا نوٹس بھیجا وہ بھی لغو رہا۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

بدائع الصنائع (3/284) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة

در مختار مع رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

فتاویٰ شامیہ (4/419) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved