• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے پیپر پر انگوٹھا لگانے کے بعد مزید طلاق کے الفاظ بولنے کا حکم:

استفتاء

میری جب شادی ہوئی تو میرے شوہر بیمار تھے، میں پانچ ماہ تک وہاں رہی پھر میں اپنے والدین کے گھر آگئی۔ ہم نے طلاق کا مطالبہ کیا لیکن اس وقت اس نے طلاق نہیں دی پھر جب ہم نے خلع کا کیس کیا تو اس نے نومبر 2019 میں عدالت میں آکر میرے سامنے طلاق کے پیپر پر انگوٹھے لگا دیئے جس کی کاپی ساتھ لف ہے۔ ہم نے اپنا سامان وغیرہ بھی اٹھا لیا تھا۔ اس کے بعد میں جب عدت بیٹھی تھی تو دورانِ عدت ہم دونوں کی باتیں ہورہی تھیں تو باتوں باتوں میں، میں نے کہا کہ آپ نے مجھے آزاد کیا ہے؟ تو اس نے کہا ’’ہاں، میں نے تمہیں آزاد کیا اور میری طرف سے تم پہلے بھی آزاد تھی اور اب بھی آزاد ہواور میں نے تمہیں کب کا فارغ کیا‘‘

اب سوال یہ ہے کہ ہماری طلاق ہوگئی ہے کہ نہیں؟ اور میں کہیں اور نکاح کرسکتی ہوں یا نہیں؟

(دار الافتاء سے شوہر کو کال کرکے پوچھا گیا تو اس نے یہ بیان دیا)

مفتی صاحب میرے ساتھ سارا معاملہ زبردستی کروایا گیا ہے میں نے مجبور ہوکر انگوٹھے لگادیئے تھے۔ اورآزاد کردیا والے الفاظ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے تجھے قید کب رکھا ہے؟

شوہر سے پوچھا گیا کہ زبردستی کی کیا صورت تھی تو اس نے بتایا کہ بیوی کہتی تھی میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میں نے مجبور ہوکر انگوٹھا لگا دیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور عورت آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے طلاق کے پیپر پر جس مجبوری میں انگوٹھا لگایا وہ مجبوری ایسی نہیں تھی جو شرعا قابلِ

اعتبار ہو اور اس کی وجہ سے طلاق واقع نہ ہو لہٰذا طلاق کے پیپر کی عبارت میں شوہر نے اس جملے سےکہ ’’I have divorced the plaintiff‘‘ (یعنی میں نے مدعیہ کو طلاق دے دی ہے) طلاق دینے کا اقرار کیا ہے جس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی، اس کے بعد عورت کی عدت شروع ہوگئی۔ عدت میں مزید طلاق دی جائے تو واقع ہوجاتی ہے لہٰذا عدت کے دوران شوہر نے جو جملے استعمال کیے کہ ’’ہاں، میں نے تمہیں آزاد کیا اور میری طرف سے تم پہلے بھی آزاد تھی اور اب بھی آزاد ہواور میں نے تمہیں کب کا فارغ کیا‘‘ان جملوں میں سے پہلے جملے سے کہ ’’ہاں، میں نے تمہیں آزاد کیا‘‘ مزید ایک رجعی طلاق واقع ہوئی جو پہلی طلاق سے مل کر دو رجعی طلاقیں ہوگئیں۔ پھر اس کے بعد شوہر نے جو جملہ استعمال کیا کہ ’’میری طرف سے تم پہلے بھی آزاد تھی اور اب بھی آزاد ہو‘‘ یہ کنائی الفاظ ہیں جن سے سابقہ رجعی طلاقیں بائنہ ہوگئیں کیونکہ رجعی طلاق کے بعد کنائی الفاظ بولنے عام طور سے ہمارے عرف وعادت کے اعتبار سے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وصف میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور شوہر کا جملہ کہ ’’میں نے تمہیں کب کا فارغ کیا‘‘ بیوی کو فارغ کرنے کی خبر ہے اور چونکہ بیوی یہ جملہ کہنے سے پہلی ہی بائنہ طلاق کی وجہ سے شوہر کے نکاح سے فارغ ہوچکی تھی اس لیے یہ جملہ محض خبر پر محمول ہوگا اور اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

رد المحتار مع در مختار (217/9) میں ہے:

وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ.

(قوله: وهو نوعان) أي الإكراه، وكل منهما معدم للرضا لكن الملجئ، وهو الكامل يوجب الإلجاء، ويفسد الاختيار فنفي الرضا أعم من إفساد الاختيار والرضا بإزاء الكراهة، والاختيار بإزاء الجبر ففي الإكراه بحبس أو ضرب لا شك في وجود الكراهة وعدم الرضا وإن تحقق الاختيار الصحيح إذ فساده إنما هو بالتخويف بإتلاف النفس، أو العضو

البحر الرائق (428/3) میں ہے:

لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ.

درر الحکام شرح غرر الاحکام (228/2باب العدة) میں ہے:

ومن حكمها [أي العدةِ]…….. صحة الطلاق فيها

فتاویٰ شامیہ (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة

رد المحتار (519/4) میں ہے:

فإذا قال "رهاكردم” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved