• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو کئی مرتبہ کہا ’’آپ فارغ ہیں‘‘ پھر ایک صریح طلاق دی تو کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

استفتاء

جناب گزارش ہے کہ ہماری میاں بیوی کی کام کاج کی وجہ سے لڑائی ہوئی اور یہ ایک سال پہلے کی بات ہے۔ اس لڑائی میں، میں نے اپنی بیوی سے بولا: آپ نے اگر کوئی لڑائی جھگڑا کیا تو میں آپ کو طلاق دے دوں گا۔ پھر ایک سال بعد دوبارہ لڑائی ہوئی، اس جھگڑے میں، میں نے اپنی بیوی سے بولا ’’آپ فارغ ہیں‘‘ یہ الفاظ تین چار مرتبہ بول دیئے اور ایک مرتبہ ایک طلاق دی اور یہ لفظ میری بیوی نے نہیں سنا۔

اس صورت میں کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوئیں ہیں جن سے سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے، لہذااگرمیاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہرکےساتھ دوبارہ نکاح کرکےرہ سکتے ہیں ۔

نوٹ: آئندہ کے لئے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر کے اس جملے سے کہ ’’آپ فارغ ہیں‘‘  ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی کیونکہ یہ جملہ کنایاتِ طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے غصہ اور لڑائی کی حالت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد دوبارہ یہی الفاظ بولنے سے لا يلحق البائنُ البائنَ کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس کے بعد شوہر نےلکھا ہے کہ ’’اورایک مرتبہ ایک طلاق دی اوریہ لفظ میری بیوی نے نہیں سنا ‘‘اس عبارت کے بارے میں سائل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسے واضح کرے کہ اس نے ایک مرتبہ طلاق دینے میں اصل الفاظ کیا استعمال کیے لیکن اس کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں ملاتاہم اس عبارت کا مفہوم متبادر ایک صریح طلاق ہے اور الصريح يلحق الصريح ويلحق البائن کے تحت اس سے دوسری طلاق واقع ہوگئی اور یہ دوسری طلاق پہلی طلاق سے مل کر دو بائنہ طلاقیں ہوگئیں۔

در مختار مع رد المحتار (4/521) میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا

قوله: (توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب ………….. لأنها [أي ما يتعين للجواب] وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ فارغ کا لفظ اپنے مفہوم وموارد میں خلیہ وبریہ کے مقارب ہے، کہا جاتا ہے یہ مکان یا برتن فارغ ہے، یہاں خالی کے معنی میں استعمال ہوا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں مولوی صاحب مدرسہ سے فارغ کر دیے گئے ہیں یا ملازمت سے فارغ ہیں یہاں علیحدگی اور جدائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو بائن اور بریہ کا ترجمہ ہے یا اس کے مقارب ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ فارغ کے لفظ سے خلیہ و امثالہا کی طرح حالتِ غضب میں طلاق نہ ہو لیکن اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ ہمارے عرف میں فارغ کا لفظ سبّ کے لیے مستعمل نہیں، صرف جواب کو محتمل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ حالت غضب میں طلاق ہو جائے ولولم ینو، لیکن اگر یہ لفظ رد کا احتمال بھی رکھے تو پھر ہر حالت میں نیت کے بغیر طلاق نہ ہوگی۔ یہ بندہ کے اوہام ہیں حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ بینوا توجروا

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

البحر الرائق (533/3) میں ہے:

وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved