• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرحوم شخص کی طرف سے زکوٰۃ

استفتاء

السلام علیکم۔ میرے سسر کا انتقال ہوگیا ہے، میری ساس اور تمام گھر والوں میں سے کسی کو نہیں پتہ کہ انہوں نے آخری بار زکوٰة  کب دی تھی۔ سسر کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے کچھ پیسے ہیں جو نیشنل سیونگ میں 2010 سے جمع ہیں اور کچھ پیسے ہیں جو 2020 سے جمع ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کے ذمہ زکوٰة واجب الادا ہے اور کتنے سال کی ہے؟ جزاک اللہ ۔

وضاحت مطلوب ہے: 1۔سسر ریٹائر کب ہوئے؟   اور کتنے پیسے تب سے لے کر اکاؤنٹ میں ہیں         2   ۔ کیا سسر نے کبھی بھی زکوٰة  ادا نہں کی؟3۔ اس سوال کا تقاضہ آپ کی طرف سے ہے یا سب ورثاء کی طرف سے؟

جواب وضاحت:1۔ریٹائر 2010 میں ہوئے تھے تب سے 1,500,000 ہیں اور 2020  میں 1,000,000دادا ابو کا گھر بیچنے کے نتیجہ میں حصہ میں سے ملے تھے۔  2۔2013 سے تو شاید زکوٰة ادا نہیں کی اور کسی کو یاد بھی نہیں ہے۔3۔ زکوٰة كی ادائیگی پر سب ورثاء متفق ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر مرحوم نے زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی تو اب بھی ان کے ذمہ زکوٰۃ واجب ہے اور جتنے سالوں کی زکوٰۃ انہوں نے نہیں دی اتنے سالوں کی واجب ہے تاہم چونکہ انہوں نے زکوٰۃ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تھی اس لیے ورثاء کے ذمہ زکوٰۃ کی ادائیگی لازم نہیں لیکن اگر ورثاء اپنی خوشی سےان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہیں تو ادا کرسکتے ہیں اور ورثاء کے غالب گمان کے مطابق جتنے سالوں کی زکوٰۃ مرحوم نے ادا نہیں تھی اتنے سالوں کی زکوٰۃ ادا کردیں۔

نوٹ: یہ جواب اس صورت میں جب بینک نے زکوٰۃ کی کٹوتی نہ کی ہو ، اگر بینک زکوٰۃ کی کٹوتی کرتا رہا تھا تو اب زکوٰۃ دینے کی ضرورت نہیں۔

حاشیہ ابن عابدین مع الدر المختار(760/6) میں ہے:

وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي، وإلا لا..

(قوله وأما دين الله تعالى إلخ) محترز قوله من جهة العباد وذلك كالزكاة والكفارات ونحوها قال الزيلعي فإنها تسقط بالموت فلا يلزم الورثة أداؤها إلا إذا أوصى بها؛ أو تبرعوا بها هم من عندهم، لأن الركن في العبادات نية المكلف وفعله، وقد فات بموته فلا يتصور بقاء الواجب اهـ وتمامه فيه، أقول: وظاهر التعليل أن الورثة لو تبرعوا بها لا يسقط الواجب عنه لعدم النية منه ولأن فعلهم لا يقوم مقام فعله بدون إذنه تأمل (قوله من ثلث الباقي) أي الفاضل عن الحقوق المتقدمة، وعن دين العباد فإنه يقدم لو اجتمع مع دين الله تعالى، لأنه تعالى هو الغني ونحن الفقراء كما في الدر المنتقى

حاشیہ ابن عابدین مع الدر المختار (271/2) میں ہے:

(قوله وافتراضها عمري) قال في البدائع وعليه عامة المشايخ، ففي أي وقت أدى يكون مؤديا للواجب، ويتعين ذلك الوقت للوجوب، ‌وإذا ‌لم ‌يؤد ‌إلى ‌آخر ‌عمره ‌يتضيق ‌عليه ‌الوجوب، ‌حتى ‌لو ‌لم ‌يؤد ‌حتى ‌مات ‌يأثم

حاشیہ ابن عابدین مع الدر المختار (294/2) میں ہے:

(ولا يؤخذ من تركته بغير وصية) لفقد شرطها وهو النية (‌وإن ‌أوصى ‌بها ‌اعتبر ‌من ‌الثلث) إلا أن يجيز الورثة… (شك أنه أدى الزكاة أو لا يؤديها) لأن وقتها العمر….

(قوله: لأن وقتها العمر) قال في البحر عن الواقعات: فرق بين هذا وبين ما إذا شك في الصلاة بعد ذهاب الوقت أصلاها أم لا؟ والفرق أن العمر كله وقت لأداء الزكاة فصار هذا بمنزلة شك وقع في أداء الصلاة في وقتها، ولو كان كذلك يعيد اهـ.

قال في البحر: وقعت حادثة هي أن من شك هل أدى جميع ما عليه من الزكاة أم لا بأن كان يؤدي متفرقا ولا يضبطه هل يلزمه إعادتها ومقتضى ما ذكرنا لزوم الإعادة حيث لم يغلب على ظنه دفع قدر معين؛ لأنه ثابت في ذمته بيقين فلا يخرج عن العهدة بالشك..

قلت: وحاصله أنه يتحرى في مقدار المؤدى: كما لو شك في عدد الركعات، فما غلب على ظنه أنه أداه سقط عنه وأدى الباقي، وإن لم يغلب على ظنه شيء أدى الكل، والله تعالى أعلم

فتاوی    ہندیہ (1/383) میں ہے:

العبرة في الزكاة ‌للحول ‌القمري كذا في القنية

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved