• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جہیز کے سامان پر زکوۃ کا حکم

استفتاء

(1)  ایک آدمی کی شادی ہوئی ، اس کو جہیز میں کچھ  سامان ملا تھا لیکن وہ سامان کئی سالوں سے استعمال نہیں ہوا، لیکن کبھی کبھی خوشی و غمی میں استعمال ہوتا تھا، کیا اس سامان پر زکوۃ ہو گی ؟

(2) ایک آدمی لاہور میں رہتا ہے ، اصلی گھر پیچھے گاؤں میں ہے ،جائداد بھی گاؤں میں ہے ، پیدائش بھی گاؤں میں ہوئی ہے کیا وہ آدمی گاؤں میں پوری نماز پڑھے گا یا قصر ؟

تنقیح: سائل شاہدرہ میں رہتا ہے ، یہیں اس کا اپنا مکان ،   ذریعہِ معاش اور اہل وعیال قیام پذیر ہیں  جبکہ گاؤں میں سکونت کا ارادہ ختم  کر دیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) اس سامان پر زکوۃ واجب نہیں ۔

فتاوی شامی (2/262) میں ہے :

 وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية أيضا

(2)    مذکورہ صورت میں چونکہ سابقہ وطن اصلی سے رہائش ختم کرنے کی نیت کر لی ہے تو سابقہ وطن اصلی ختم ہو گیا ، لہذا اگر وہاں 15 دن سے کم کی نیت سے جائیں گے تو قصر نماز پڑھیں گے ۔

کفایہ مع فتح القدیر (2/18) میں ہے :

و في المحيط ولو انتقل بأهله ومتاعه إلى بلد وبقي له دور وعقار في الاول، قيل بقي الاول وطنا له وإليه أشار محمد في الكتاب حيث قال باع داره و نقل عياله، وقيل لم يبق وفي الاجناس  قال هشام: سألت محمدًا عن كوفي أوطن بغداد وله بالكوفة دار واختار الي مكة القصر قال محمد هذا حالي وأنا أرى القصر إن نوى ترك وطنه إلا أن أبا يوسف كان يتم بها لكنه يحمل على أنه لم ينو ترک وطنه قال الشيخ نجم الدين الزاهدي وهذا جواب واقعة ابتلينا به وكثير من  المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظهما أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر.

امدادا لفتاوی (1/459) میں ہے :

سوال (۵۱۰) ایک شخص نے جس کا مکان سکونت اس کی زاد بوم وطن اصلی میں ہے اس کی زوجہ اولی و دیگر اعزا و اقران اس کے سب وہیں ہیں دوسرے شہر میں فقط زوجہ ثانیہ کے قیام و سکونت کے لئے مکان بنایا چند سال کے رہنے کے بعد باعث نا مواقفت آب و ہوا و مبتلا با مراض رہنے زوجہ ثانیہ کے وطن زاد یوم میں اپنی زوجہ ثانیہ کو لیجانا پڑا اور اس دوسرے شہر کے مکان کو مقفل کر دیا بعض اسباب خانہ داری بھی اب تک یہیں ہیں اور زوجہ ثانیہ کا پھر اس دوسرے شہر میں آنا بھی اس دم تک مشکوک ہے ایسے حال میں وہ شخص اگر ایک دن کے لئے کسی ضرورت سے یا مکان کی نگرانی کے خیال سے اس شہر میں مسافت طے کر کے آئے تو اس کو قصر کرنا ہوگا یا چار رکعت پوری فرض ادا کرنا ہوگا ، اس مسئلہ میں جو قول محقق و مفتی بہ حنفی ہو مع نقل عبارت معتبرات رقم فرما یا جاوے۔ بینوا ايها العلماء الكرام احسن الله جزاكم يوم القيامة؟

الجواب:  في رد المحتار قال فى النهر ولونقل اهله ومتاعه وله دور في البلد لا تبقى وطناله وقيل تبقى كذا فى المحيط . اس سے معلوم ہوا کہ صورت مذکورہ میں دونوں قول ہیں اور یہی دونوں قول فتح القدیر اور بحر الرائق میں بھی نقل کئے ہیں اور بحر میں دونوں قول کی دلیلیں بھی نقل کی ہیں اور فتح القدیر میں دونوں کی تطبیق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور میرے نزدیک تطبیق ہی مختار ہے چنانچہ اس صورت میں امام محمد کا قول هذا حالي وانا ارى القصر ان نوى ترك وطنه  نقل کر کے لکھا ہے ( الاان ابايوسف كان يتم بها لكنه يحمل على انه لم ينوترك وطنه ۔ خلاصہ تطبیق کا یہ ہوا کہ اگر اس دوسرے شہر میں پھر بطور وطن رہنے کا ارادہ نہیں ہے جس طرح پہلے رہتا تھا تب تو وطن نہ رہا۔ وہاں جا کر قصر کر یگا جب مسافت سفر طے کر کے آئے اور اگر اب بھی اس طرح رہنے کا ارادہ ہے تو وہ بھی وطن ہے پس اس شخص کے دو وطن ہو جاویں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved