• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بر سر روزگار مدرس کا دینی کتابوں کے لیے زکوۃ لینا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام  اس مسئلہ کے بارے میں  کہ طالب علم تو غنی ہونے کے باوجود اپنی ضروریات کے لیے زکوۃ لے سکتا ہے ، جیسا کہ در مختار میں موجود ہے ۔ لیکن کوئی بندہ طالب علم نہیں ، بلکہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے ، اور وہ  بندہ اتنی استطاعت بھی نہیں رکھتا کہ مہنگی مہنگی کتابیں خرید سکے تو کیا وہ زکوۃ یا عشر کے پیسے اپنی کتابوں کے لیے لے سکتا ہے؟ جبکہ زکوۃ لینے والا یہ  شخص شرعی فقیر بھی ہے   جس پر زکوۃ فرض نہیں ۔ برائے مہربانی اس مسئلہ میں رہنمائی فرما دیں ۔

تنقیح: بندہ ایک مدرسہ میں مدرس ہے اور استفادے کے لیے کتابوں کی ضروت پیش آتی ہے نیز  بندے کے پاس ضرورت سے زائد مال بقدر نصاب بھی موجود نہیں ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اولا تو یہ بات درست نہیں کہ طالب علم غنی ہونے کے باوجود زکوۃ لے سکتا ہے بلکہ طالب علم کے زکوۃ لینے کے لیے بھی ضروری ہے  کہ وہ مستحق زکوۃ ہو  جیسا کہ فتاوی شامی کے مندرجہ ذیل حوالے میں ” وهذا الفرع مخالف لإطلاقهم الحرمة في الغنى ولم يعتمده أحد”  سے معلوم ہوتا ہے اور ثانیا جس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا ہے وہ اگر  واقعتا  مستحق زکوۃ ہو  تو اسے اگر کوئی زکوۃ دے تو وہ لے سکتا ہے تا ہم اس کے لیے کسی سے کہہ کر زکوۃ لینا یعنی زکوۃ مانگنا جائز نہیں ۔

فتاوی شامی (2/340) میں ہے:

  والغنى لا يمنع من تناولها عند الحاجة كابن السبيل بحر عن البدائع: وبهذا التعليل يقوى ما نسب للواقعات من أن طالب العلم يجوز له أخذ الزكاة ولو غنيا إذا فرغ نفسه لإفادة العلم واستفادته لعجزه عن الكسب والحاجة داعية إلى ما لا بد منه كذا ذكره المصنف ۔

(قوله: ما نسب للواقعات) ذكر المصنف أنه رآه بخط ثقة معزيا إليها.

قلت: ورأيته في جامع الفتاوى ونصه وفي المبسوط: لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي ومنقطع الحج لقوله – عليه الصلاة والسلام – «يجوز دفع الزكاة لطالب العلم وإن كان له نفقة أربعين سنة» . اهـ. (قوله: من أن طالب العلم) أي الشرعي (قوله: إذا فرغ نفسه) أي عن الاكتساب قال ط: المراد أنه لا تعلق له بغير ذلك فنحو البطالات المعلومة وما يجلب له النشاط من مذهبات الهموم لا ينافي التفرغ بل هو سعي في أسباب التحصيل (قوله واستفادته) لعل الواو بمعنى أو المانعة الخلو ط (قوله: لعجزه) علة لجواز الأخذ ط (قوله: والحاجة داعية إلخ) الواو للحال.

والمعنى أن الإنسان يحتاج إلى أشياء لا غنى عنها فحينئذ إذا لم يجز له قبول للزكاة مع عدم اكتسابه أنفق ما عنده ومكث محتاجا فينقطع عن الإفادة والاستفادة فيضعف الدين لعدم من يتحمله وهذا الفرع مخالف لإطلاقهم الحرمة في الغنى ولم يعتمده أحد ط. قلت: وهو كذلك. والأوجه تقييد بالفقير، ويكون طلب العلم مرخصا لجواز سؤاله من الزكاة وغيرها وإن كان قادرا على الكسب إذ بدونه لا يحل له السؤال كما سيأتي۔

در مختار  صفحہ 139 پر ہے :

(ولا) يحل أن (يسأل) شيئا من القوت (‌من ‌له ‌قوت يومه) بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب، ويأثم معطيه إن علم بحاله لاعانته على المحرم

حاشیۃ الطحطاوی صفحہ 722 پر ہے :

وفي التنوير وشرحه ولا يحل أن يسأل شيئا من القوت من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم

امداد الفتاوی (3/544) میں ہے :

اور بعض فقہاء نے جو طالب علم کے لیے مطلقاً اخذ زکوۃ جائز رکھا ہے۔ كما في الدر المختار : ان طالب العلم يجوز له أخذ الزكوة ولو غنيًا الخ.

وہ غیر معتمد ہے۔ كما فی الطحطاوی: وهذا الفرع مخالف لاطلاقهم الحرمة في الغني ولم  يعتمده أحد الخ. پس قول مرجوح پر افتاء باطل ہے۔ کما بین فی رسم المفتی۔ 

احسن الفتاوی (4/268) میں ہے :

سوال *** دیندار شخص ہے مستحق صدقات واجبہ ہے ، اس کو زکوۃ ، عشر، صدقۃ الفطر وغیرہ صدقات واجبہ سے سوال کر کے لینا جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا

الجواب باسم ملہم الصواب:جس شخص کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو یا کمانے پر قدرت ہو، اس کا خوراک کے لئے سوال کرنا حرام ہے، اور اس کو دینا بھی حرام ہے، دوسری ضروریات لباس مکان وغیرہ کو بھی اسی پر قیاس کر لیا جائے کہ بقدر ضرورت موجود ہونے کی صورت میں سوال کرنا حرام ہے، آجکل لڑکیوں کا جہیز بنانے کے لئے زکوۃ مانگنے کا عام دستور ہو گیا ہے، شرعا یہ ضرورت میں داخل نہیں، اس لئے سوال نا جائز ہے، البتہ بدوں سوال از خود کوئی دیدے تو مضایقہ نہیں حضرات فقہاء  رحمہم اللہ تعالی نے مسکین طالب علم دین کو سوال کی اجازت تحریر فرمائی ہے، مگر یہ اُس زمانہ کی بات ہے جبکہ عوام میں علم دین سے نفرت نہیں تھی، علم دین اور اس کے پڑھنے پڑھانے والوں سے نفرت کے اس دور میں طالب علم دین کو بھی سوال کی اجازت نہیں، اس میں دین کی تذلیل و تحقیر ہے، اہل ثروت سے استغناء اور تو کل علی اللہ کی برکات کی تفصیل کے لئے میرا رسالہ "صيانة العلماء عن الذل عند الاغنياء” مندرجہ احسن الفتاوی جلد اول ملاحظہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved