• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوٰۃ کے متعلق مختلف سوالات

استفتاء

کسی کی بہن اگر طلاق کے بعد گھر آگئی ہو اور اس  کے پاس پانچ تولہ سونا ہے ایک پلاٹ  ہے جس کی مالیت  سات لاکھ ہے اور وہ نوکری کرتی ہے، تنخواہ 45 ہزار تک ہے(1)  كيا وه  زکوٰۃ کی مستحق ہے؟  اور اس کی تین بیٹیاں ہوں ،ایک بچی بالغ (15 سال کی)،ایک بچی نو سال کی سمجھدار اور ایک بچی ایک سال کی ہو۔(2)کیا ان بچیوں کو زکوٰۃ کے پیسوں سے کچھ دلایا جاسکتا ہے؟ یا ان کے اسکول کی فیس ادا کی جاسکتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔مذکورہ عورت زکوۃ کی مستحق نہیں ہے کیونکہ وہ غنی ہے ۔

2۔اگر  بالغ بچی کی اپنی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر سونا، نقدی، گھریلو فالتو سامان نہ ہو تو ان کو زکوٰۃ کی رقم  سے کچھ دینا چاہیں یا ان کی فیس دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔ نیز فیس دینے میں بچی کی طرف سے اجازت بھی ضروری ہے۔نابالغ بچیوں  کی والد کی حیثیت کو دیکھا جائے گا اگر باپ صاحب نصاب ہو تو ان بچیوں کو  زکوۃ نہیں دے سکتے اور اگر باپ صاحب نصاب نہ ہو تو ان بچیوں کو  زکوۃ کی رقم دینا جائز ہے۔

الدر المختار (3/295) میں ہے:

(و)  لا یصرف إلى (غني) ‌يملك ‌قدر ‌نصاب فارغ عن حاجته الاصلية من أي مال كان، كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائتي درهم كما جزم به في البحر والنهر.

شامی (2/ 299) میں ہے:

فأفاد أن المراد بالطفل غير البالغ ذكرا كان أو أنثى في عيال«أبيه أولا على الأصح لما عنده أنه يعد غنيا بغناه.

والمانع أن الطفل يعد غنيا بغنى أبيه بخلاف الكبير فإنه لا يعد غنيا بغنى أبيه ولا الأب بغنى ابنه ولا الزوجة بغنى زوجها ولا الطفل بغنى أمه.

الدر المختار (3/283) میں ہے:

(مصرف ‌الزكاة والعشر هو فقير، وهو من له أدنى شئ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة (ومسكين من  لاشئ له).

الدر المختار مع ردالمحتار (3/283) میں ہے:

أما دين الحى الفقير فيجوز بأمره

قوله:(فيجوز بأمره) أى يجوز عن الزكوة على أنه تمليك منه والدائن يقبضه بحكم النيابة عنه ثم يصير قابضا لنفسه، فتح.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved