• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوکان کی وصیت میں اختلاف پر دوکان کی ملکیت  کا حکم

استفتاء

والد صاحب نے دکان نمبر ۱     ؁۱۹۷۸ء میں خرید کر پانچ بیٹوں کے نام کی اور خود اس میں محنت کرتے رہے۔ چھٹا بیٹا شعیب ؁۱۹۸۸ء میں پیدا ہوا ۔ سن ۱۹۹۲ء میں دکان نمبر ۲ والد صاحب نے خود خرید کر سب چھ بیٹوں کے نام کی۔ شعیب (سب سے چھوٹا بھائی )اس وقت صرف چار سال کا تھا اور اقبال اور رفیق پڑھ رہے تھے۔ دوکان نمبر ۱ میں والد صاحب اور بڑا بھائی جہانزیب کام کرتے تھے۔غازی اور اکرم کو والد صاحب نے دکان نمبر ۲  میں بٹھایا جس میں وہ مل کر کام کرنے  لگے۔ ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے جو ایک  منزل کا تھا اور ایک ہی ہانڈی بنتی تھی۔ دونوں دکانوں سے گھر کا خرچ ہماری ماں کو پکڑایا جاتا۔ ہماری ماں گھر کا سارا نظام اور خرچ چلاتی اور والد صاحب گھر کے سربراہ تھے۔ اقبال بھائی بتاتے ہیں کہ کبھی دکان نمبر ۱ سے اقبال بھائی  گھر کا خرچ ماں کو پکڑاتے اور غازی اور اکرم فیس، بجلی کا بل اور دیگر اخراجات ماں کر پکڑاتے۔ کبھی یہ ترتیب بدل جاتی لیکن کمی و بیشی کے ساتھ یہ ترتیب چل رہی تھی اور گھر کا مشترکہ نظام چل رہا تھا۔

والد صاحب نے ۱۹۹۷ء؁  یا؁۱۹۹۸ء میں ایک دکان (دکان نمبر ۳ ) کا خود سودا کیا اور اس کا بیعانہ چھ لاکھ (600000)روپے ادا کیا۔ پارٹی کے ساتھ کچھ رکاوٹ رہی لیکن  بعد میں والد صاحب اور پارٹی کا معاملہ طے پا گیا۔ ؁۲۰۰۲ء میں  بقیہ رقم اٹھارہ  لاکھ (1800000)روپے دوسرے دو بھائی غازی اور اکرم (جو کہ دکان نمبر ۲ میں کام کرتے تھے اور کماتے تھے) سے ادا  کروائی۔ والد صاحب چونکہ سربراہ تھے اس لئے ان کے حکم سے رجسٹری دونوں چھوٹے بھائیوں رفیق اور شعیب کے نام کروائی۔والد صاحب نے جائیداد کی پہلے زبانی تقسیم کی جسکی ترتیب درج ذیل ہے:

  • دو کان نمبر۱ جہانزیب اور اقبال کو دی‌۔
  • دو کان نمبر۲ غازی اور اکرم کو دی‌۔
  • دو کان نمبر ۳ شعیب اور رفیق  کو دی‌۔
  • چھوٹی دو کان نمبر ۴ والد صاحب نے غازی اور اکرم کو بہترین کار کرد گی پر اضافی دی‌۔
  • پرانا گھر جہا‌نزیب اور اقبال کو دیا۔
  • نیا گھر غازی ،اکرم ، رفیق اور شعیب کو دیا۔

اور وفات سے پہلے والد صاحب نے تمام جائیداد کی عملی  تقسیم کرتے ہوئے اسی ترتیب کے مطابق دوکانیں تمام بھائیوں کے نام کروا کر قبضہ بھی دے دیا۔ اور اس ساری تقسیم کے گواہ تمام بھائی بھی ہیں اور والد صاحب نے کئی مختلف مجالس میں اس کا تذکرہ بھی کیا ۔ لیکن اب پندرہ سال بعد بھائی غازی  کہتے  ہیں  کہ  اس دوکان کے بقیہ اٹھارہ  لاکھ (1800000) میں نے ادا کیے تھے  اور والد صاحب نے مجھے خود مختار بنایا تھا لہذا یہ دوکان میری ہے۔

اب آپ شریعت کی روشنی میں فرما دیں کہ یہ  دوکان کس کی ملکیت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اصل کاروبار والد صاحب کا تھا اور بیٹے ان کے معاون تھے لہذا ساری دوکانوں اور کاروبار کے مالک بھی والد صاحب ہی تھے۔ جو پیسے بھائی غازی نے ادا کیے وہ بھی در حقیقت والد صاحب ہی کے تھے کیونکہ اسی کاروبار اور دوکان سے ادا کیے تھے لہذا ہ دوکان (دوکان نمبر ۳)والد صاحب نے جن بیٹوں(شعیب اور رفیق) کو دی تھی انہیں  کی ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved