• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ٹیکس سے بچنے کے لیے زمین کی قیمت کم لکھوانا

استفتاء

زمین کی خرید وفروخت کے وقت اصل قیمت سے کم لکھواتے ہیں تاکہ حکومتی ٹیکس کم دینا پڑے۔ کیا اس کی گنجائش ہے؟

اسلام میں ایک لاکھ روپے پر ڈھائی فیصد یعنی ڈھائی ہزار ہوپے زکوۃ ہے جبکہ حکومت والے7.5 لاکھ سے 10 لاکھ سالانہ آمدنی والے پر ٪7 ٹیکس لگاتے ہیں اور 15 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے پر ٪15 ٹیکس لگاتے ہیں۔ کیا یہ ان کے لئے جائز ہے یا یہ ظلم ہے؟ اس وجہ سے محکمہ ٹیکس کو اپنی آمدنی کم لکھوانے کی گنجائش ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس میں شک نہیں کہ موجودہ دور میں سرکاری یا ریاستی جائز اخراجات بھی بہت ہیں مثلاً دفاع، پولیس، تعلیم اور صحت جیسے شعبے ہیں جو خالص غیر پیداواری ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے پاس بہت بڑی آمدنی کے ذرائع بھی ہیں مثلاً گیس، ٹرانسپورٹ، معدنیات، پانی وغیرہ۔ پھر تیسری بات یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن ہونے کی بڑی شہرت ہے اور واقعہ بھی ایسے ہی ہے۔اور آخر میں یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے اور ٹیکس کلچر کو ایک خوبی سمجھا اور باور کرایا جارہا ہے۔ حالانکہ عمرانیات کا یہ مسلمہ ضابطہ ہے کہ اگر معیار زندگی بلند کرنے کی دوڑ میں ٹیکس بڑھائے جائیں تو افراد کمائی کی مشین بن کر رہ جاتے ہیں، اور اخروی سعادت اور بہت سے خیر کے کاموں کے لیے ان کے پاس چاہنے کے باوجود وقت نہیں بچ پاتا۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنے زمانے میں معاشرتی خرابیوں کے اسباب گنواتے ہوئے لکھتے ہیں :

حجۃ اللہ البالغہ 1/141میں ہے:

"والثاني ضرب الضرائب الثقيلة على الزراع والتجار والمتحرفة والتشديد عليهم حتىٰ يفضي إلى إجحاف المطاوعين واستئصالهم وإلى تمنع أولى بأس شديد وبغيهم وإنما تصلح المدينة بالجباية اليسيرة وإقامة الحفظة بقدر الضرورة فليتنبه أهل الزمان لهذه النكتة والله أعلم”

ترجمہ: خرابی کی دوسری وجہ کسانوں، تاجروں اور صنعت کاروں پر بھاری ٹیکس لگاناہے اور اس معاملے میں سختی برتنا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سر تسليم خم کرنے والوں كی معاشی اعتبار سے کمر ٹوٹ جاتی ہے اور طاقت رکھنے والے اس سے انکار کرتے ہیں اور بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ حقیقیتِ حال یہ ہے کہ ملک ہلکے ٹیکسوں سے اور بقدرِ ضرورت محافظین (سرکاری عملہ، پولیس وغیرہ) مقرر کرنے ہی سے اچھے اور معتدل انداز میں چل سکتا ہے۔ اہل زمانہ کو اس اہم نکتہ سے آگاہ ہوجانا چاہئے۔

آگے چل کر قیصر وکسریٰ کے تعیشات اور ان کے لگائے گئے ٹیکسوں کے اثرات اور نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

1/302 میں ہے:

"وذٰلك أن تلك الأشياء لم تكن لتحصل إلا ببذل أموال خطيرة ولا تحصل تلك الأموال إلا بتضعيف الضرائب على الفلاحين والتجار وأشباههم والتضييق عليهم فإن امتنعوا قاتلوهم وعذبوهم وإن أطاعوا جعلوهم بمنزلة الحمير والبقر تستعمل في النضح والدياس والحصاد ولا تقتنىٰ إلا ليستعان بها في الحاجات ثم لاتترك ساعة من العناء حتىٰ صاروا لا يرفعون رؤوسهم إلى السعادة الأخروية أصلا ولايستطيعون ذٰلك وربما كان إقليم واسع ليس فيهم أحد يهمه دينه”

ترجمہ: اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ چیزیں ڈھیروں مال خرچ کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی تھیں اور وہ اموال کسانوں پر اور تاجروں پر اور ان جیسے لوگوں پر ٹیکسوں کو دوگناہ کئے بغیر اور ان پر تنگی کئے بغیرحاصل نہیں ہوسکتے تھے۔ پس اگر یہ لوگ انکار کریں تو وہ ان کے ساتھ جنگ کرتے تھے اور ان کو سزا دیتے تھے اور اگر اطاعت کریں تو وہ ان کو ان گدھوں اور بیلوں کی طرح بنا لیتے تھے جنہیں آب پاشی، غلہ کی گہائی اور کٹائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اور انہیں صرف اس لئے پالا جاتا ہے کہ ان سے اپنی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ پھر ان کو گھڑی بھر کے لئے بھی مشقت سے چھٹی نہ دی جائے یہاں تک کہ وہ لوگ ایسے ہو جائیں کہ اخروی سعادت کے لئے بلکل ہی سر نہ اٹھا سکیں اور نہ ان میں اس کی طاقت رہے۔ معاملہ اس حد تک سنگین ہو جاتا ہے کہ ایک وسیع سلطنت میں کسی ایک آدمی کو بھی اپنے دین کی فکر نہیں ہوتی۔

بہرحال دیانتداری سے دیکھا جائے تو کسی حد تک ٹیکس لگانا مشروع بھی ہے اور معقول بھی ہے۔ اب یہ معاشیات اور بزنس کے ماہرین اندازہ کرکے اور حساب لگا کر  بتائیں گے کہ ہمارے ملک کے آمد وخرچ میں کیا فرق ہے اور دیانتداری سے ہو تو کتنا ٹیکس لگایا جائے۔ پورا پورا حساب نہ لگا سکیں تو اندازہ بھی کافی ہے۔ اگر اندازہ اس طریقے سے لگائیں کہ غنی پر کتنی آمدنی پر کل کتنا ٹیکس لگے تو رائے قائم کرنے میں مزید سہولت ہوگی۔

شریعت کی رو سے ٹیکس لگانے کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ حکومت کی دیگر غیر ٹیکس ذرائع سے آمدن کو دیکھا جائے کہ کتنی ہے۔ پھر یہ دیکھا جائے کہ دیانتداری کے ساتھ جو اخراجات ہوں وہ کتنے ہیں۔ اگر اخراجات زیادہ ہوں تو فرق کو مال داروں سے ٹیکس لگا کر وصول کیا جاسکتا ہے۔

لہذا اگر آپ کی رسائی ایسے کسی ماہر معاشیات تک ہو جو ایک سرسری (Rough) اندازہ لگا سکے کہ حکومت کا ٹیکس لگانا کس حد تک معقول ہے اور کتنا ظلم ہے تو ظلم کی حد تک ٹیکس کسی حیلے سے معاف کراکر اپنا حق بچانا جائز ہے۔

در مختار9/704میں ہے:

"الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام”

الاشباہ والنظائر1/266 میں ہے:

"ومنه الكذب مفسدة محرمة وهي متىٰ تضمن جلب مصلحة تربو عليه جاز كالكذب للإصلاح بين الناس وعلىٰ الزوجة لإصلاحها وهذا النوع راجع إلى ارتكاب أخف المفسدتين في الحقيقية عامة كانت أو خاصة”

عمدة القاری 12/32 میں ہے:

"وفيه الحيل في التخلص من الظلمة بل إذا علم أنه لا يتخلص إلا بالكذب جاز له الكذب الصراح”

پھر ظالمانہ ٹیکس کی ادائیگی میں دو قول ہیں:

اپنی اصل آمدنی کو چھپاکر رکھے اور تھوڑا ظاہر کرے تاکہ مکمل ٹیکس سے بچے یا ٹیکس کم دینا پڑے۔ یہ اس وقت ہے جب حکومت جتنا ٹیکس مل جائے اس پر قناعت کرے اور مزید ٹیکس نہ لگائے۔اور جب واقعی صورتحال یہ ہو کہ حکومت وصول شدہ ٹیکس کو ناکافی سمجھ کر ٹیکس دینے والوں پر بشمول کمزور مالی حالات والوں پر مزید ٹیکس لگا کر اپنی مطلوبہ آمدنی پوری وصول کرنا چاہتی ہو تو اس صورت میں بھی دو قول ہیں: ایک یہ کہ آمدنی چھپانا اور کم دکھانا درست نہیں کیونکہ اس میں دوسروں پر ظلم ہوتا ہے اور یہ ظلم ٹیکس بچانے والا نہیں کررہا بلکہ اصحاب اقتدار کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کل آمدنی پر جتنا ٹیکس بنتا ہے وہ پورا دے دے۔ اس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ حکومت مزید ٹیکس نہ لگائے اور ایک اور فائدہ یہ ہے کہ آخرت میں اس ظلم کا اجر ملے گا۔

صحیح مسلم  (رقم: 1847)میں ہے:

"قال حذيفة بن اليمان قلت يا رسول الله انا كنا بشر فجاء الله بخير فنحن فيه فهل من وراء هذا الخير شر قال نعم قلت هل وراء ذلك الشر خير قال نعم قلت فهل وراء ذلك الخير شر قال نعم قلت كيف قال يكون بعدى ائمة لا يهتدون بهداى ولا يستنون بسنتى وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان انس قال قلت كيف اصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك قال تسمع وتطيع للأمير وان ضرب ظهرك وأخذ مالك فاسمع وأطع”

ترجمہ: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! ہم شر میں مبتلا تھے اللہ ہمارے پاس اس بھلائی کو لایا جس میں ہم ہیں تو کیا اس بھلائی کے پیچھے بھی کوئی  برائی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جی ہاں! میں نے عرض کیا: کیا اس برائی کے پیچھے کوئی خیر بھی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں! میں نے عرض کیا: کیا اس خیر کے پیچھے کوئی برائی بھی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں! میں عرض کیا: یہ سب کیسے ہوگا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد ایسے مقتداء ہونگے جو میری ہدایت سے راہنمائی حاصل نہ کریں گے اور نہ میری سنت کو اپنائیں گے اور عنقریب ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے کہ ان کے دل انسانی جسموں میں شیطان کے دل ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اگر اس زمانے کو پاؤں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: امیر کی بات سننا اور اطاعت کرنا اگرچہ تیری پیٹھ پر مارا جائے اور تیرا مال غصب کر لیا جائےپھر بھی اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔

پھر ایک بات رہ جاتی ہے ۔ وہ یہ کہ انکم ٹیکس کا عملہ اپنا حصہ بھی مانگتا ہے۔ ظاہر ہے یہ دیئے بغیر گاڑی آگے نہیں چلتی۔ جو کچھ انہیں دینا پڑے ٹیکس کے حساب میں اس کو بھی شامل کرلیا جائے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved