• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سٹاف ویلیفیئر فنڈ کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سٹاف ویلفیئر فنڈ

اس فنڈ کا باقاعدہ اجرا ءانشاءاللہ جنوری 2019 سے ہوگا۔

شرائط

1۔ فنڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے درخواست گزار یعنی سٹاف ممبر 25000 تک کا قرضہ لے سکے گا جو سو فیصد قابل واپسی ہو گا اور دس مساوی اقساط میں واپس کیا جا سکے گا۔

2۔ ہر ممبر اس ویلفیئر فنڈ میں شریک ہوسکتا ہے۔

3۔ ہر ممبر 200 روپے ماہانہ اس فنڈ میں جمع کرائے گا جو کہ بوقت تنخواہ وصول کر لیا جائے گا ،ادارہ جمع کروائے گا۔

فائدہ

جنوری 2019 کے 2 سال بعد یعنی 2021  تک جو ممبر سکول چھوڑے گا اس کو اس کی رقم کا دگنادیا جائے گا۔ اگر کوئی ممبر دو سال سے پہلے چھوڑ دے گا تو اس کی جمع شدہ رقم ہی ملے گی ۔

نوٹ :میں۔۔۔۔۔۔۔۔ نے تمام قواعد و ضوابط پڑھ کر سمجھ کر دستخط کر دیے ہیں ۔

کیا اس میں سودشامل تو نہیں ہے؟ شریعت کے لحاظ سے جواب عنایت فرمائیں

وضاحت مطلوب ہے:

(۱)دگنی رقم کس مد میں دی جائے گی ؟(۲)فنڈ اختیاری ہے یا لازمی (۳)تنخواہ میں سے ادارے والے خود ماہانہ فنڈ کاٹ لیتے ہیں یا ممبر خود علیحدہ سے جمع کرواتا ہے؟

جواب وضاحت :

انتظامیہ اپنی طرف سے دیتی ہے اور کچھ نہیں بتاتے یہ فنڈ اختیاری ہے ممبر خود جمع کروائے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ فنڈ میں شرکت جائز نہیں ہے کیونکہ دو سال بعد سکول چھوڑنے پر سکول کی طرف سے دی جانے والی دگنی رقم سود پر مشتمل ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ فنڈ اگرچہ پراویڈنٹ فنڈ کی طرح کا ایک فنڈ ہے جس کو بہت سے مفتیان کرام نے جائز کہا ہے لیکن اس کے جواز کی یہ تو جیہ کی گئی ہے کہ پرائیویٹ فنڈ میں ادارہ ملازم کی تنخواہ میں سے فنڈ کی رقم خود کاٹ لیتا ہے اور چونکہ تنخواہ یعنی اجرت قبضے میں آنے سے پہلے ملازم کی مملوک نہیں بنتی، اس لئے ادارہ اس میں جو اضافہ کرتا ہے وہ سود نہیں بنتا جبکہ مذکورہ صورت ایسی نہیں ہے، بلکہ ملازم اپنی تنخواہ وصول کرکے خود اس فنڈ میں رقم جمع کروائے گا جس پر اضافہ سود بنتا ہے ۔چنانچہ جواہرالفقہ(277/3) میں ہے:

اس سے صاف واضح ہے اجرت کا جو حصہ ابھی ملازم کے قبضے میں نہیں آیا نہ وہ اس کا مملوک ہے اور نہ اس کے تصرفات اس میں جائز ہیں ۔۔۔۔بنا بریں محکمہ پرائیویٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی خواہ محکمہ نےسود کا نام لے کر دیاہو۔

مزید283/3صفحہ پر ہے:

اگر کوئی ملازم اپنی پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کو درخواست دے کر کسی بیمہ کمپنی میں منتقل کرا دے یا یہ فنڈ ملازم کی رضامندی سےکسی مستقل کمیٹی کی تحویل میں دے دیا جائے۔ جیسا کہ بعض غیر سرکاری کارخانوں میں ہوتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے خود وصول کرکے بیمہ کمپنی یا کمیٹی کو دے۔ اس لئے اس رقم پر جو سود لگایا جائے تو شرعا سود ہی کے حکم میں ہے اور قطعا حرام ہے ،کیونکہ اس صورت میں بیمہ کمپنی یا کمیٹی اس کی وکیل ہوجاتی ہے ،وکیل کا قبضہ شرعا موکل کا قبضہ ہوتا ہے۔پھرتنخواہ کی رقم پر قبضہ کے بعد اس کا سود لینا قطعا حرام ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved