• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر بیوی کو تین طلاقوں کا گمان زیادہ ہوتو اپنے حق میں اس کو تین ہی سمجھے

استفتاء

جناب میں ایک مسئلے سے دوچار ہوں۔ جس کی وجہ سے میں آپ کو خط لکھ رہی ہوں، مہربانی فرماکر میری صحیح رہنمائی فرمائیں۔ میری کزن کی آپ سے فون پر بات ہوئی تھی تو آپ نے کہاتھا کہ مسئلہ  تفصیل سے لکھ کر بھیجیں۔

مسئلہ  یہ ہے کہ میرے شوہر کسی بات پر مجھ سے شاید ناراض تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہ تھا ۔ وہ کچھ ضدی قسم کے ہیں اور ضدمیں کسی کی نہیں سنتے  ہیں۔ میرے سسر کو کچھ محسوس ہو ا تو مجھے کہنے لگے کہ چلو میں بنک جارہاہوں میرے ساتھ چلو راستے میں تمہیں سمجھاؤں گا ۔ ان کے بار بار کہنے پر میں تو تیار ہو گئی لیکن میرے شوہر نہیں جانا چاہتے تھے۔ اور میرے سسر نے سمجھانے کے طور پر میرے میاں سے ایک دو باتیں کہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم تھاکہ بلا وجہ انکا موڈ خراب ہوجاتاہے۔ اور بات کچھ بھی نہیں تھی۔ لیکن ان کو غصہ آگیا۔ اور اس وقت میں ان کے سامنے کھڑی تھی ، میرے سسر اور میری جیٹھانی بھی پاس ہی تھی۔ تب انہوں نے مجھے طلاق کے الفاظ کہے۔ اس بات کو کچھ سال گزرگئے ہیں  اس لیے مجھے صحیح الفاظ یا د نہیں لیکن غالب گمان ہے کہ  ” میں اسےطلاق  دیتاہوں ، طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں” اور تین چار  مرتبہ کہے۔ اور اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہوا۔ پھر میں نے اپنے سسر سے کہا کہ مجھے میری امی کے گھر جانے دیں۔ لیکن وہ نہ مانے ، اور مجھے کسی سے بات بھی نہ کرنے دے رہے تھے۔ شام کو بہت مشکل سے پوچھ کر میں نے اپنی استانی صاحبہ کو فون کیا اور اپنا نام لیے بغیر یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مفتی صاحب ہی درست فیصلہ دے سکتے ہیں وہ بھی عالمہ ہیں۔

پھر اگلے دن میری ساس اور سسر دونوں مال روڈ پر نہر کے پل پر جو مدرسہ ہے وہاں اور ایک صدر کے مدرسے میں گئے ۔ اور مسئلہ دریافت کیا۔ اور گھر آکر یہ کہا کہ طلاق صرف دو مرتبہ ہی کہی ہے۔ اور میری جیٹھانی کو بھی اس پر گواہ کرلیا اس لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ تم رجوع کرسکتے ہو۔ اورمیرے شوہر پہلے ہی کہنے لگے کہ اگر تین مرتبہ ہواتو میں  اپنے چھوٹے بھائی سے تمہارا نکاح کرواکر  یعنی حلالہ کرواکر پھر سے نکاح کرلیں گے۔ لیکن میں اس پر راضی نہ تھی۔

اور اس سے پہلے  میرے شوہر نے مجھ سے معافی بھی مانگی تھی اور کہا کہ کسی کو نہ بتانا۔ تمہارے ماں باپ بیمارہیں اور میری بہنیں بھی چھوٹی تھیں۔ اور انہی دنوں میں میرے والد کو دل کا عارضہ ہوا تھا۔ اور پھر میرے سسر نے سب لوگوں (گھروالوں) کو بٹھا کر قران پاک بیچ میں رکھ کر قسم دی کہ یہ بات ہم چار، پانچ لوگوں میں سے باہر نہ جائے۔ میں اپنے والدین کی وجہ سے پریشان تھی کہ کہیں اس وجہ سے انہیں نہ کچھ ہوجائے، کیونکہ ہم صرف تین ہی بہنیں ہیں۔ اور میں ہی بڑی ہوں۔پھر کچھ دن بعد میں خود اپنی استانی صاحبہ کے پاس گئی تو انہیں یہ بات بتائی  تو انہوں نے بھی شاید دومرتبہ کہنے کا سن کر کہا کہ اپنے والدین کو نہ بتاؤ۔ اور میں نے نہیں بتایا۔  لیکن مفتی صاحب میرے حالات ویسے ہی ہیں اور اب سال ہوگیاہے میں اپنے والدین کے گھر پر ہی ہوں۔ انہوں نے کبھی فون کرکے بھی نہیں پوچھا، ایک بچہ ہوا تھا وہ بھی فوت ہوگیا۔ اب حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے اس بات کا گمان ہوتاہے کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہوئی، جس وجہ سے یہ ہورہا ہے ۔ اب جب میں نے دوبارہ اپنی استانی صاحبہ سے بات کی ہے تو انہوں نے کہا کہ اپنے والدین کو بتاؤ۔ اور اگر ایسا ہے تو چھوڑ دو۔کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ دو مرتبہ کہا ہے لیکن میرادل نہیں مانتا ، کیا کروں؟

اور اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بھی بہت بولتے ہیں کیونکہ اس وقت میں زیادہ نہیں جانتی تھی میری شادی میری خالہ کے گھر ہوئی ہے۔ اب یہ بات میں نے اپنی والدہ کو بتادی ہے وہ بھی بہت پریشان  ہیں۔

اگرطلاق کے بارے میں جواب ہاں ہے تو بھی بتائیے اور اگرنہ ہے توبھی بتائیے کہ میں آگے کیا حکمت عملی اختیار کروں ؟اور مفتی صاحب مہربانی فرماکر یہ بھی بتائیے کہ ان لوگوں سے اب اس بارے میں بات کس طر ح کی جائے؟  مجھے سمجھ میں نہیں آرہا۔

اب ان سے بات کی جائے تو کیا جیٹھانی سے بھی گواہی لینی پڑی گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر سائلہ کو غالب گمان یہی ہے کہ یہ الفاظ ” میں اسے طلاق دیتاہوں” تین دفعہ کہے تھے تو  ان الفاظ کی بناء پر سائلہ کو تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور نکاح ختم ہوگیا ہے اور سائلہ کو اپنے شوہر کےساتھ ازدواجی تعلقات قائم رکھنا ناجائز  اور حرام ہیں۔ اب تک جو تعلقات قائم رکھے گئے اس پر توبہ استغفار کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved