• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹے کیلئے وصیت کرنے کاحکم

استفتاء

والدین کا ایک گھر تھا وہ انہوں نے اپنی زندگی میں تمام اولاد میں تقسیم کر دیا اب والدہ کے انتقال کے بعد بینک میں انکے پیسے تھے جو انہوں نے اپنے اور اپنے شوہر کے  علاج معالجے کے لیے رکھے تھے اور دونوں ماں باپ کی مرضی سے  یہ  وصیت تھی کہ ہمارے بعد یہ رقم چھوٹے بیٹے کی ہوگی (چھوٹے بیٹے کے گھر میں ہی ماں باپ رہتے تھے اور سارا خرچہ وہی اٹھاتا تھا) ۔۔والد زندہ ہیں مگر انکی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔اب اس رقم کا فیصلہ کس طرح کریں اور کیا ہم اس رقم کو انکے لیے صدقہ جاریہ کر سکتے ہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں بیٹے کیلئے کی  گئی وصیت کا شرعا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ بیٹا وارث ہے اور وارث کے لئے وصیت درست  نہیں ہوتی البتہ جو ورثاءعاقل بالغ ہوں اور  اپنی  رضامندی  اس وصیت  پر عمل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور اگر تمام ورثاء راضی ہوں تو وہ پیسے شوہر کے علاج پر بھی خرچ  کیے  جاسکتے ہیں۔مذکورہ صورت  میں والد کی دماغی حالت چونکہ  درست نہیں اس لئے ان کاحصہ نکالا جائے گا  اور باقی عاقل بالغ ورثاء کے حصے  میں جو رقم جائے گی وہ اپنی خوشی سے چھوٹے بیٹے کو نہ دیناچاہیں  تو یہ رقم وراثت میں تقسیم ہوگی  جس کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس رقم کو  12حصوں میں تقسیم کرکےایک حصہ(8.33فیصد) بیٹی کواور   2حصے  (16.16 فیصد) ہر بیٹے کو    ملے گا جبکہ ایک حصہ(8.33فیصد)  مرحومہ کےشوہر (آپ کے والد )کا  ہوگا۔

نیز اگر ورثاء اپنی مرضی سے موجودہ رقم  کو صدقہ کرنا چاہیں تو اس صورت  میں بھی مرحومہ کے  شوہر کا حصہ نکال  کر باقی کا  صدقہ کرسکتے ہیں ۔

در مختار (10/366)  میں ہے:

(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام: لا وصية لوارث إلا ‌أن ‌يجيزها ‌الورثة يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية، ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته.

بدائع الصنائع(6/175)  میں ہے:

(أما) المجنون فلا تصح منه ‌التصرفات ‌القولية كلها فلا يجوز طلاقه وعتاقه وكتابته وإقراره، ولا ينعقد بيعه وشراؤه حتى لا تلحقه الإجازة، ولا يصح منه قبول الهبة والصدقة والوصية، وكذا الصبي الذي لا يعقل؛ لأن الأهلية شرط جواز التصرف وانعقاده ولا أهلية بدون العقل.

بدائع الصنائع(5/153) میں ہے:

(وأما) الذي يرجع إلى ‌المولى ‌فيه فهو أن لا يكون من التصرفات الضارة بالمولى عليه لقوله – عليه الصلاة والسلام -: «لا ضرر، ولا ضرار في الإسلام» ، وقال – عليه الصلاة والسلام -: «من لم يرحم صغيرنا فليس منا» ، والإضرار بالصغير ليس من المرحمة في شيء فليس له أن يهب مال الصغير من غيره بغير عوض؛ لأنه إزالة ملكه من غير عوض فكان ضررا محضا.

در مختار (9/291) میں ہے:

(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء(‌إن ‌كان ‌نافعا) ‌محضا (كالاسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض لا وإن أذن به وليهما  ،وفي الشامية  تحت قوله ”ان ضارا“أي من كل وجه أي ضررا دنيويا، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض 

 وفي الشامية  فقوله ”ان اذن الولي  به” وكذا لا تصح من غيره كأبيه ووصيه والقاضي للضرر.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved