• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غیر مدخول بہا بیوی کو کہا طلاق ہے ،طلاق ہے ، طلاق ہے

استفتاء

**** اور **** دوسگے بھائی ہیں **** کی منگنی ایک عورت مثلاً **** سے ہوئی اور نکاح بھی ہوگیا،لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی، رخصتی سے پہلے ہی **** لاپتہ ہوگیا۔ اخبارات میں اشتہارات دیے گئے اور تھانوں میں یہی اطلاع کی گئی لیکن کوئی سراغ نہیں لگ سکا۔ اس طرح دس بارہ سال تقریبا غائب رہا آخرعزیز واقارب سب متفق ہوگئے کہ **** مرگیاہے اور مقامی علماء کرام کی حضور میں **** کی شہادت تسامع بالموت پیش کی علماء کرام نے عد ت گزرنے کے بعد **** کو دوسری شادی کا فتوی دیا ۔اب **** کی شادی **** کے سگے بھائی **** سے ہوگئی، اور مزید دس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اچانک **** واپس آگیا۔ اور وہ **** کو اپنے نکاح میں باقی رکھنا نہیں چاہتاہے ساتھ**** نے طلاق بھی صراحتا چند افراد کی سامنے دی ہے ۔ **** کی جبکہ **** اپنے نکاح میں باقی رکھنا چاہتاہے لیکن عورت **** دونوں کے ساتھ نہیں رہناچاہتی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ **** اب کس کے نکاح میں متصور ہوگی اور کیا ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے سے نکاح کرسکتی ہے۔جبکہ والدصاحب محترم **** کی رضا رغبت کی اور **** سےپوچھ کی بغیر ایک بار حوالہ کیا اور **** واپس اپنے والد کے پاس آئے والد صاحب فرمارہا ہے، **** کے حوالے کردوچاہے وہ عبد الوہاب کے نکاح میں رہنے دیں یا **** کے ساتھ عقد کردیں والد کا یہ فیصلہ شرعا کیسا ہے۔ چچا اور ماموں، نا نانے والد محترم سے التجاء کیا ہےکہ یہ کام شریعت سے ٹھیک نہیں لہذا یہ حرکت نہ کیجئے ، لیکن مانتانہیں ، مدلل جواب فرماکر ثواب دارین حاصل کریں۔

وضاحت: تقریبا ایک مہینہ ایک ہفتہ ہوگیا کہ*** نے ان الفاظ سے **** کو تین طلاقیں دی ہے۔

"آپ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے”۔ اور **** کی **** کے ساتھ نکاح کے بعد ابھی خلوت صحیحہ نہیں ہوئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں **** کے طلاق دینے کی وجہ سے **** کو ایک طلاق بائن ہوگئی  اور نکاح ختم ہوگیا اور اب اگر **** ان دونوں کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

نیز **** کے والد کا **** کو **** یا ***کے ساتھ نکاح پر مجبور کرکے ان میں سے کسی ایک  کے ساتھ ٹھہرانا درست نہیں۔

قال لزوجته غيرالمدخول بهاأنت طالق ثلاثا وقعن وإن فرق بوصف أو خبر أو غيره بانت بالأولى ولذا لم تقع الثانية بخلاف الموطؤة حيث يقع الكل. وقال الشامي تحت قوله(بخلاف الموطؤء) أي ولو حكماٍ كالمختلى بها فإنها كالموطؤء في لزوم العدة وكذا في وقوع طلاق بائن آخر في عدتها.(شامی،ص:499،ج:4)

 لايجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا أو ثيباً۔(عالمگیری، ص:287، ج”1)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved