• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گناہ کی قسم اٹھانے کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب عرض یہ کرنی تھی کہ اگر کوئی بندہ یہ قسم کھائے  مذاق میں کہ  ” قسم سے میں تیرے ہاتھ میں پکڑادوں گا  "( اس کی مرادذکر ہو ) کیا وہ حانث ہوجائے گا  ؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ معصیت کی قسم فوراً ٹوٹ جاتی ہے اور کفارہ لازم آتا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں قسم منعقد ہوگئی ہے  ۔ چونکہ یہ ایک گناہ کی قسم ہے اس لیے  حکم یہ ہے کہ اس کو پورا نہ کیا جائے اور اس پر توبہ و استغفار کیا جائے  اور  قسم  اٹھانے  والے کو چاہیے  کہ اپنے ورثاء کو یہ وصیت کردے کہ وہ  اس کی موت کے بعد اس کی طرف سے  قسم کا کفارہ ادا کردیں  ۔

توجیہ : مذکورہ قسم میں اگرچہ اللہ تعالی کا کوئی ذاتی یا صفاتی نام ذکر نہیں کیا  گیا لیکن  صرف قسم کا لفظ  استعمال کرنا بھی عرف کی وجہ سے قسم ہی شمار ہوگا  ۔ نیز یہ قسم چونکہ مؤقت نہیں ہے  اس لیے یہ قسم اٹھانے والے کی موت پر ٹوٹے گی  اور اس کے بعد ہی کفارہ لازم آئے گا ۔

تبیین  الحقائق شرح كنز الدقائق (3/ 109) میں ہے :

«واليمين بالله تعالى والرحمن الرحيم وعزته وجلاله وكبريائه ‌وأقسم وأحلف وأشهد وإن لم يقل بالله ولعمر الله وأيم الله وعهد الله وميثاقه وعلي نذر ونذر الله وإن فعل كذا فهو كافر أي اليمين تكون بهذه الألفاظ لأن الحلف بها متعارف»

شامی  (3/ 728) میں ہے :

«ومن حلف على معصية عدم الكلام مع أبويه أو قتل فلان) وإنما قال (اليوم) لأن وجوب الحنث لا يتأتى إلا في اليمين المؤقتة. أما المطلقة فحنثه في آخر حياته، فيوصى بالكفارة بموت الحالف ويكفر عن يمينه بهلاك المحلوف عليه غاية (‌وجب ‌الحنث والتكفير) لأنه أهون الأمرين»

ہدایہ    (2/ 320) میں ہے :

«ومن ‌حلف ‌على ‌معصية مثل أن لا يصلي أو لا يكلم أباه أو ليقتلن فلانا ينبغي أن يحنث نفسه ويكفر عن يمينه ” لقوله عليه الصلاة والسلام: ” من حلف على يمين ورأى غيرها خيرا منها فليأت بالذي هو خير ثم ليكفر عن يمينه "»

بدائع الصنائع  (3/ 17)  میں ہے :

وإن كان على ترك الواجب أو على فعل معصية بأن قال والله لا أصلي صلاة الفرض أو لا أصوم رمضان أو قال والله لأشربن الخمر أو لأزنين أو لأقتلن فلانا أو لا أكلم والدي ونحو ذلك فإنه يجب عليه للحال الكفارة بالتوبة والاستغفار ثم يجب عليه أن يحنث نفسه ويكون بالمال لأن عقد هذه اليمين معصية فيجب تكفيرها بالتوبة والاستغفار في الحال كسائر الجنايات التي ليس فيها كفارة معهودة

فتاوی محمودیہ ( 22/518) میں ہے :

سوال : ایک شخص کہہ رہا ہے کہ میں قسم کھا رہا ہوں کہ اگر میں کھانا کھاؤں تو حرام کھاؤں گا اگر وہ کھانا کھائے تو حانث   ہوگا یا نہیں اور قسم کا کفارہ دینا پڑے گا یا نہیں واضح ہو کہ مذکورہ لفظ میں قسم کے علاوہ اللہ کے ذاتی و صفاتی نام میں سے کوئی لفظ اس نے نہیں کہا تو قسم ہو گئی یا نہیں ؟

الجواب : واليمين بالله او باسم من اسمائه الى قوله واقسم واشهد واحلف وان لم يقل بالله عملا بالعرف ( الدر المنتقی )

عبارت بالا سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں قسم ہو گئی ہے ۔

مسائل بہشتی زیور ( 2/162) میں ہے :

اگر خدا کا نام نہیں لیا فقط اتنا کہہ دیا میں قسم کھاتا ہوں کہ فلاں کام نہ کروں گا تو قسم ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کام کرنا گناہ ہو یا وہ کام چھوڑنا گناہ ہو مثلاً قسم کھائی کہ فلاں شخص کو (ناحق) قتل کروں گا یا کبھی والدین سے بات نہ کروں گا‘ تو قسم کو توڑنا واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved