• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کےچندے میں ڈالے گئے حرام پیسوں کے متعلق سوالات

استفتاء

1۔جیسے شرعی مسئلہ ہے کہ ایک حرام کا لقمہ بھی کھانے سے 40 دن کی عبادت قبول نہیں ہوتی تو اگر مسجد انتظامیہ کے ذریعے سے امام صاحب کو جو رقم تنخواہ یا وظیفہ کے طور پر ملتی ہے اس میں حرام کا پیسہ ہے تو اس امام کا نماز پڑھانا اور مقتدیوں کا اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور یہ رقم مسجد کی باقی ضروریات میں بھی استعمال ہوئی، نمازیوں نے وہاں سے وضو بھی کیا، پانی بھی پیا وغیرہ تو کیا اس کا وبال مسجد انتظامیہ پر ہوا یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:حرام کا پیسہ ہونے سے کیا مراد ہے؟

جواب وضاحت:مسجد کے اخراجات کیلئے جھولی یا چندے کے بکس میں جو پیسہ اکٹھا کیا گیا اس میں باآسانی حرام کی کمائی یعنی حرام ذریعے سے کمانے والا شخص کا پیسہ شامل ہو جاتا ہے ، تو یہی پیسے مسجد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے استعمال ہوئے مثلًا امام صاحب کی تنخواہ یا وظائف مسجد کے پانی کے آنے کا ذریعہ بھی یہی پیشہ بنا وغیرہ مراد ہے.

2۔کیا مسجد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے نماز کے بعد مسجد میں لوگوں کے سامنے جھولی پھیلانایا مسجد میں چندے کیلئے بکس رکھنا جائز ہے ؟حالانکہ اس جھولی اور چندے کے بکس میں مشتبہ مال بآسانی آسکتا ہے ؟

3۔مسجد کے اخراجات مثلًا امام و خادم کی تنخواہ یا وظائف، مختلف بل، مسجد کی مرمت، تعمیرات اور دیگر ضروریات وغیرہ حلال ذرائع سے پوری ہو جائیں، کیلئے کیا اعمال اور اسباب اختیار کیے جائیں تاکہ مسجد انتظامیہ مسجد کی ان تمام معاشی سرگرمیوں کو احسن طریقہ سے پورا کر سکے اور اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. حرام کا پیسہ ہونے جووجہ ذکر کی گئی ہے یہ وجہ مذکورہ پیسے کو حرام کہنے کے لئے کافی نہیں، لہذا مذکورہ پیسوں سے تنخواہ لینے والے امام کا نماز پڑھانا ان کے پیچھے نماز پڑھنا اور ان پیسوں سے دیگر ضروریات کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا سب جائز ہے۔
  2. جائز ہے۔

3. دعاؤں میں لگیں اور مخیر حضرات کو ترغیب دےکر متوجہ کریں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved