• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کو پارک، مارکیٹ بنانا

استفتاء

جامع مسجد مدنی و مدرسہ جامعہ محمدیہ تجوید القران *** جو تقریباً 32 سال سے مدنی ٹرسٹ رجسٹرڈ کے زیر انتظام کام کر رہے ہیں۔ جبکہ اس جگہ مسجد اس سے بھی پہلے بشمول اس مدت تقریباً 60 سال سے قائم ہے جس میں پنجگانہ نمازیں، نماز تراویح، جمعہ، اجتماع اور اعتکاف وغیرہ اعمال مسجد ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران متعدد بار مسجد کی توسیع کی ضرورت پیش آئی جس کا نقشہ مقامی سوسائٹی سے منظور کروایا گیا اور مسجد کی توسیع کا سنگ بنیاد صدر سوسائٹی سے رکھوایا گیا۔ اور مدرسے کا سنگ بنیاد مقامی سوسائٹی جامع اشرفیہ مفتی *** سے رکھوایا گیا۔ مسجد ہذا میں صدر سوسائٹی و دیگر اراکین سوسائٹی نمازیں بھی ادا کرتے رہے۔ مسجد و مدرسہ کے لیے سرکاری بجلی، گیس، ٹیلی فون کا کنکشن بھی لگوایا گیا اور مسجد و مدرسہ ہی کے نام بل بھی ادا کیے جاتے رہے اور مسجد و مدرسہ کے لیے پانی کی فراہمی سوسائٹی کے ذمہ تھی جو تاحال جاری ہے۔ مسجد کی جگہ سوسائٹی کی تھی سرکاری نہیں تھی۔ سرکار کو جگہ سے سروکار نہیں۔ سوسائٹی یہ چاہتی ہے کہ مسجد یہاں سے ہٹا کر دوسری جگہ بنائی جائے اور یہاں پلازے اور گراؤنڈ وغیرہ بنایا جائے۔ امور درج ذیل ہیں:

الف: مذکورہ بالا صورت حال میں مسجد کو مسجد شرعی کی حیثیت حاصل ہے یا کہ اس کو صرف جائے نماز ہی کہا جائے گا؟

ب: مسجد ہذا کو شارع عام کے علاوہ پارک یا مارکیٹ یا کسی اور استعمال میں لانے کے لیے منہدم کرنا کیسا ہے؟

ج: اس مسجد کو بالکلیہ منہدم کر کے اس کے عوض دوسری جگہ مسجد تعمیر کر کے اس نئی مسجد کو اس منہدم شدہ مسجد کا متبادل قرار دینا کیسا ہے؟

د: اس مسجد کا متولی ٹرسٹ مدنی کی تولیت ختم کرنا کیسا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

 1۔ جب مذکورہ جگہ سوسائٹی کی ملکیت تھی اور انکی نہ صرف اجازت سے وہاں مسجد بنائی گئی بلکہ سوسائٹی نے نقشہ پاس کیا اور صدر خود تمام مراحل میں شریک رہے اور نمازیں بھی پڑھتے رہے تو اب مسجد کی حیثیت مسجد شرعی کی ہے۔

2۔ جب ایک مرتبہ مسجد مسجد شرعی بن گئی تو اب اس مسجد کو منہدم کر کے اس جگہ پارک، مارکیٹ وغیرہ تعمیر نہیں کرسکتے۔

3۔ اسی طرح مسجد کو منہدم کر کے اس کے متبادل دوسری جگہ مسجد بنانا بھی درست نہیں۔

و في الدر المختار: ( لو خرب ما حوله و استغني عنه يبقى مسجداً عند الإمام و الثاني) أبداً إلى قيام الساعة ( و به يفتى) حاوي القدسي و في الشامية ( قوله عند الإمام و الثاني) فلا يجوز ميراثاً و لا يجوز نقله و نقل ماله إلى آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا و هو الفتوي۔ ( شامی: 4/ 358)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved