• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میراث کی ایک صورت

استفتاء

محترم مفتی صاحب۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ آپ کی رہنمائی اور فتویٰ کی ضرورت ہے۔

(1)میرا نام *** عمر 78 سال

(2)میرے چھوٹے بھائی کا نام*** عمر 75 سال

(3) اس سے چھوٹے بھائی کا نام *** عمر70سال

(4)میرے سب سے چھوٹے بھائی کا نام ***عمر50 سال

ہماری کوئی بہن  نہیں ہے۔***، محمود، ***  ہم تینوں میرے والد صاحب کی پہلی بیوی کی اولاد ہیں اور ہم تینوں  کا سوتیلا بھائی(سعید)  ہے اور اس کی پیدائش ہندوستان کی ہے اور تاحال  وہیں مقیم ہے۔ الحمد للہ ہم سب مسلمان گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ میرے والد صاحب کا انتقال جنوری 2010 میں 89 سال کی عمر میں ہوا اور حال ہی میں میری والدہ کا انتقال جون 2023 میں ہوا اس وقت ان کی عمر 95 سال تھی۔ یہ  تو تعارف تھا اب اصل مسئلہ کی طرف آتے ہیں۔

میرے والد صاحب کا جب جنوری 2010 میں انتقال ہوا تو اس وقت  ان کی غیر منقولہ جائیداد میں ایک کنال کا گھر تھا اور منقولہ میں  2006 ماڈل کی ایک گاڑی تھی۔ ہم تینوں بھائی جو پاکستان میں تھے انہوں نے والدہ (جو اس وقت حیات تھیں ) کے ساتھ مشاورت کرکے اس گھر کو نو کروڑ میں بیچا اور اسی رقم سے  ایک گھر خریدا جو میرے گھر کے بالکل متصل تھا مقصد یہ تھا کہ والدہ کی دیکھ بھال کرنے میں مجھے آسانی ہو اس رقم میں گھر خرید کر جو رقم بچی تھی اس  میں سے ہم نے والدہ کو 8/1حصہ دے کر ان کے بینک میں جمع کروادیا، بقیہ رقم ہم نے 4 بھائیوں میں یکساں تقسیم کردی ۔ ہندوستان والے بھائی ***کا حصہ اس کی مشاورت سے بذریعہ فون اس کے بیٹے کو بھجوایا جو اس وقت جاپان میں نوکری کرتا تھا اور وہیں سکونت پذیر تھا۔ گاڑی والدہ کے استعمال کے لیے رکھ چھوڑی اور فروخت نہیں کی چونکہ  ہمارا سوتیلا بھائی ***ہندوستان میں تھا  اس لیے اس گھر میں ہم اس کی ملکیت  کاغذوں میں نہیں ڈال سکے(ہزاروں مسائل آڑے آئے) یہ گھر ہم نے مشاورت سے تینوں بھائی (***، محمود، ***) اور والدہ کے نام سے خریدا تھا اور ابھی بھی ہم چاروں کی مشترکہ ملکیت ہے ۔جون 2023 میں والدہ کے انتقال کے بعد  ہم تینوں بھائیوں( جو  پاکستان میں مقیم ہیں ) نے مشاورت سے  مکان کرائے پر چڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں فروخت کردیا جائے اس گھر کا کرایہ دو لاکھ روپے ماہانہ طے پایا ہے۔

(1)اب آپ سے استدعا ہے کہ شریعت کی رُوسے اس کرایہ میں ہم چار بھائی ہیں ان کا کتنا کتنا حصہ بنتا ہے؟ اسی طرح اگر اس  کو فروخت کیا جائے تو اس میں ہم چاروں کا کتنا کتنا حصہ شریعت کی رُو سے بنتا ہے ؟

1۔ *** کا کتنا حصہ ہے؟2۔ ***کا کتنا حصہ ہے؟3۔ محمود کا کتنا حصہ ہے؟4۔سعید(سوتیلا بھائی، مقیم ہندوستان) کا کتنا حصہ ہے؟اسی طرح 2006 ماڈل کی گاڑی اگر فروخت کی جائے تو اس میں سب کا کتنا کتنا حصہ ہوگا؟براہ کرم فتویٰ جاری فرما کر ہمیں ممنون ومشکور فرمائیں، ہم دعا کرتے ہیں کہ وراثت کی تقسیم شریعت کی روشنی میں ہو تاکہ جب ہم اللہ کے حضور آخرت میں پیش ہوں تو ہمیں کوئی پشیمانی اور شرمندگی نہ ہو اور سرخ رو ہو کر اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہوں،آپ کا بہت بہت شکریہ۔

نوٹ: (1)اگر آپ کو کوئی چیز واضح نہ  ہوئی ہو  تو براہ کرم ضرور استفسار کریں۔

(2) ایک مفتی صاحب  کا خیال ہے کہ اس گھر (کوٹھی) میں ہماری والدہ صاحبہ کا  8/1 حصہ شامل ہے اس لیے کرایہ اور اگر فروخت کیا گیا تو 8/1 ہم تینوں بھائیوں ( جو ایک والدہ کے ہیں )  میں برابر تقسیم کرکے باقی 8/7 چاروں میں تقسیم کیا جائے، آپ کی قیمتی رائے اس مسئلہ پر بھی درکار ہے۔ بہت بہت شکریہ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس مفتی صاحب کا خیال آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے وہ درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved