• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ کاروبار میں وراثت کی ایک صورت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ *** کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، *** کے والدین اور بیوی کا انتقال پہلے ہی ہوچکا ہے۔بیٹوں میں ایک بیٹا اور بیٹیوں میں دو بیٹیاں  بالغ ہیں۔ *** نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کی، *** نے اپنے تمام بچوں کو چاہے  بالغ ہوں  یا نابالغ سب کو ان کے حصوں کے بقدر اپنی جائیداد وغیرہ  تقسیم  کرکے دے دی یعنی نقد پیسے اور جائیداد وغیرہ میں سب کو ان کا  حصہ متعین کروایا، اب یہ معلوم نہیں کہ *** نے اپنے لیے الگ حصہ رکھا یا نہیں ، جب تقسیم ہوگئی   تو بڑا  بھائی اپنا حصہ لے کر چلا گیا اور  علیحدہ رہنے لگا اور *** اپنی بقیہ  اولاد کے ساتھ زندگی بسر کرتا رہا  ان بچوں کے  مال کا اختیار والد صاحب یعنی *** کے  پاس تھا  اور یہ بیٹے 15 یا 20 سال سے مشترکہ  کاروبار کر رہے تھے۔ *** اور ان بیٹوں کا کاروبار چل رہا تھا 15 سال بعد والد صاحب (***)  وفات پاگئے ، اب چند سوالوں کے جواب مطلوب ہیں:

(1) والد صاحب( *** ) کی وفات کے بعد جو مال رہ گیا ہےوہ کس کا ہوگا؟  والد صاحب کا یا بقیہ اولاد کا جن کے ساتھ والد صاحب رہ رہے تھے؟ اگر والد صاحب کا ہے تو ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگا؟

(2) کیا اس مال اور پیسوں میں سب حقدار ہیں ؟ اور وہ بڑا بھائی  جو تقسيم کے وقت اپنا حصہ  لے کر چلا گیا تھا  اس کو حصہ دیا جائے گا یا نہیں؟

(3) بڑے بھائی نے بیس  سال پہلے اپنا جو حصہ لیا ہے اس میں باقی بھائیوں اور بہنوں کا حق ہے  یا نہیں؟

تنقیح:  یہ معلوم نہیں کہ باپ نے اپنے لیے کچھ رکھا تھا یا نہیں؟ بڑے بھائی کو بھی علم نہیں اور اس وقت جو کاغذات لکھے  گئے تھے ا ن  میں بھی اس کی کوئی تصریح نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی جائیداد ہے کہ جو تمام ورثاء کو ان کا حصہ متعین کروانے کے بعد بچتی ہو۔

وضاحت مطلوب ہے: اگر مذکورہ بیان سے تمام ورثاء متفق ہیں تو ان کے دستخط کرواکر کاپی ارسال  کریں۔

جواب وضاحت: اس مسئلے پر سب ورثاء متفق ہیں میں نے ان کی موجودگی میں یہ تحریر لکھی ہے، اب کچھ ورثاء غائب  ہیں ان کے دستخط کروانا  ناممکن ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں جو مال رہ گیا ہے وہ بقیہ اولاد کا ہوگا جن کے ساتھ والد صاحب رہ رہے تھے اور جس نسبت سے والد صاحب نے ان کو دیا تھا اسی نسبت سے ان میں تقسیم ہوگا البتہ جنہوں نے محنت کی ہو ان کو ان کا محنتانہ الگ سے دیا جائے گا۔

(2)اس مال اور پیسوں میں سب حقدار نہیں بلکہ صرف وہی حقدار ہیں جو والد صاحب  کے ساتھ مشترکہ رہ رہے تھے لہٰذا جو بھائی اپنا حصہ لے کر چلا گیا تھا اس کا اس میں حصہ نہ ہوگا۔

(3)اس میں دیگر بہن بھائیوں کا حصہ نہ ہوگا۔

نوٹ: یہ جواب سوال میں دی گئی معلومات کے مطابق ہے لہٰذا اگر یہ معلومات درست نہ ہوئیں یا دیگر بہن بھائیوں میں سے کسی کو ان سے اتفاق نہ ہوا تو ہمارا جواب کالعدم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved