• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح کےبعد کنایہ کااستعمال اورپہلی طلاق کی خبر

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

(1) اگر مرد عورت کی غیر موجودگی میں لیکن خاندان کے 8 یا 9 افراد کی موجودگی میں کہے کہ ’’میں اس عورت کو طلاق دیتا ہوں اور  میری طرف سے آزاد ہے، میرا اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں اب‘‘ اور یہی بات وہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں کے سامنے کہہ چکا ہو، یہاں تک کہ عورت کی بھابھی کو بھی فون پر کہہ چکا ہو کہ ’’ تمہاری نند کو میں طلاق دے چکا ہوں ، اسے چاہیے کہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلے ‘‘ اور بھابھی یہ پیغام اس عورت تک پہنچا بھی دے تو کیا طلاق واقع ہو چکی ہے؟ مزید یہ کہ وہ مرد کسی بھی قیمت پر اس عورت کو ساتھ رکھنے یا  اس سے رجوع کرنے کا روادار نہیں ہے۔

(2) طلاق کے بعد اولاد کا نان نفقہ کب تک والد کے ذمے ہے؟ جبکہ بچیاں بالغ ہوں اور وہ والدہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ نابالغ بچیوں کے نان نفقہ کا کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: (یہی بات وہ مختلف مواقع پر مختلف لوگوں کے سامنے کہہ چکا ہو) اس سے کیا مراد ہے؟

جواب وضاحت: یعنی شوہر نے مختلف مواقع پر خاندان کے لوگوں سے کہا ہے کہ ’’ میں اسے طلاق دے چکا ہوں‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1:مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں اور اگر عورت عدت کے بعد آگے نکاح کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہو گا۔

توجیہ: ’’میں اس عورت کو طلاق دیتا ہوں‘‘ شوہر کے اس جملے سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، ’’میری طرف سے وہ آزاد ہے ‘‘ کنایہ ہے جس کی وجہ سے پہلی رجعی طلاق بائنہ بن گئی، ’’ میرا اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں اب‘‘ اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لان البائن لا یلحق البائن. خاندان کے لوگوں سے یہ کہنا کہ ’’ میں اسے طلاق دے چکا ہوں‘‘  یا عورت کی بھابھی سے یہ کہنا کہ  ’’میں تمہاری نند کو طلاق دے چکا ہوں‘‘ اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ پہلی طلاق کی خبر ہے۔

نوٹ: طلاق کے لئے بیوی کی موجودگی ضروری نہیں۔

خلاصۃ الفتاوی (3/86) میں ہے:

لو قال لامرأته : أنت طالق ثم قال : زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و ان عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن.

محیط برہانی (4/393) میں ہے:

وفي «الواقعات» : إذا طلق امرأته ثم قال لها: قد طلقتك أو قال بالفارسية: طلاق دادم ترا ، دادم ترا طلاق يقع تطليقة ثانية، ولو قال: قد كنت طلقتك أو قال بالفارسية طلاق داده ام ترا لا يقع شيء.

2 : لڑکی چاہے بالغ ہو یا نابالغ شادی سے پہلے پہلے اس کا خرچہ والد کے ذمے ہے،خواہ وہ والد کے ساتھ رہے یا والدہ کے ساتھ،شادی کے بعد اس کا خرچہ اس کے شوہر کے ذمے ہو گا،البتہ اگر لڑکی کا کوئی بھی ذریعہ آمدن ہو تو پھر باپ کے ذمے خرچہ واجب نہیں۔

درمختار مع ردالمحتار (5/345) میں ہے:

(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر………(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا.

(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية. قال الخير الرملي: لو استغنت الأنثى بنحو خياطة وغزل يجب أن تكون نفقتها في كسبها كما هو ظاهر، ولا نقول تجب على الأب مع ذلك، إلا إذا كان لا يكفيها فتجب على الأب كفايتها بدفع القدر المعجوز عنه، ولم أره لأصحابنا. ولا ينافيه قولهم بخلاف الأنثى؛ لأن الممنوع إيجارها، ولا يلزم منه عدم إلزامها بحرفة تعلمها. اهـ أي الممنوع إيجارها للخدمة ونحوها مما فيه تسليمها للمستأجر بدليل قولهم؛ لأن المستأجر يخلو بها وذا لا يجوز في الشرع، وعليه فله دفعها لامرأة تعلمها حرفة كتطريز وخياطة مثلا.

(قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved