• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سنی لڑکی کا شیعہ لڑکے سے نکاح اور تین طلاق

استفتاء

یہ کہ ایک لڑکی بعمر سولہ سال جو کہ اہلسنت فرقہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے والدین بھی اہلسنت فرقہ سے تعلق رکھتےہیں نے اپنی مرضی سے والدین کی رضا کے بغیر ایک شیعہ لڑکے سے شادی کرلی۔ اور گھر سے جاکر مورخہ08۔8۔26 کو مسمی عارف کے ساتھ نکاح کرلیا۔ (نکاح نامہ لف ہے)

بعدازاں لڑکی کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ برادرانہ طورپرلڑکی کو مورخہ08۔11۔6 کو دونوں فریقین لڑکی اور لڑکے کی رضامندی سے روبرو گواہان طلاق دے دی ۔08۔8۔26 سے مورخہ 08۔11۔6 تک 72 دن دونوں بطور میاں بیوی رہے۔(لڑکی ماں باپ کے گھر واپس آگئی)۔

طلاق کے بعدلڑکے نے سیشن جج لاہور کی عدالت میں حبس بے جا کی رٹ کرکے بذریعہ پولیس لڑکی کو برآمد کرایا پولیس نے لڑکی  ۔۔۔۔جناب سیشن جج صاحب لاہور کی عدالت میں پیش کی جس پر لڑکی نے عدالت میں کہا کہ ***میرا خاوند ہے  اور میں اس کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔

جس پر عدالت نے کہا کہ لڑکی بالغ ہے کہ اپنی آزاد مرضی سے خاوند کے ساتھ جانا چاہتی ہے اور اسے لڑکے *** کے ساتھ بھیج دیا۔یہ فیصلہ 08۔12۔4 کو ہوا۔

یہ کہ طلاق نامہ مورخہ 08۔11۔6 کو تحریر ہوا اور مورخہ 08۔12۔4 کو بذریعہ عدالت لڑکی واپس چلی گئی۔ اس  طرح 32 دن طلاق دینے کے بعد دونوں پھر اکٹھے ہوگئے ، طلاق کے وقت لڑکی نے حق مہر مبلغ 25000 روپے لڑکے سے وصول کرلیا تھا۔ لڑکے نے تین طلاق اکٹھی دی کہ تحریر نامہ طلاق نامہ روبروگواہان تحریر کردیاتھا۔ باقی کسی بھی قسم کا کوئی تعلق دونوں کے درمیان نہ رہا تھا۔ طلاق کے بعد لڑکی اپنے والدین کے گھر آگئی۔طلا ق نامہ ہمراہ ہے۔

1۔یہ کہ لڑکی اہلسنت ہے اور اس کے والدین بھی اہلسنت ہیں کیا بعد ازشادی 72 دن اکٹھے رہنے کے بعدلڑکا  تین طلاقیں اکٹھی دے دے تو کیا طلاق ہوگئی یا نہیں؟

2۔ یہ کہ لڑکے کی طرف سے طلاق دینے اور حق مہر کی ادائیگی کے بعد تما م لین دین کرنے کے بعد بھی لڑکا رجوع کرسکتاہے اگر کرے گا تو اس کا کیا طریقہ ہے۔؟

3۔آج تک لڑکا لڑکی نے کسی بھی پلیٹ فارم پر طلاق نامہ کو چیلنچ نہ کیاہے۔ بلکہ اس طلاق نامہ کو لڑکے نے عدالت میں بھی ذکر نہ کیا ہے۔  اور نہ ہی اس طلاق کو زبردستی لکھانا قراردیاگیاہے۔

4۔ ان حالات میں ان دونوں کے درمیان میاں بیوی والا تعلق حلال ہے یا حرام اس کی سزا قران وحدیث کے مطابق کیاہے؟

5۔کیاوہ اب دوبارہ شادی کریں تو اس کے لیے انہیں کیا کرناچاہیے۔

6۔کیا ان حالات میں ملکی قانون کو دیکھاجائے گایاقرآن وحدیث کو دیکھا جائے۔ جبکہ قرآن وحدیث کے فیصلہ جات اٹل ہیں ملکی قانون تو بدلتاہی رہتاہے؟

7۔اگر قرآن وحدیث کے مطابق عمل نہ کریں گے تو اس کی سزا کیا ہوگی۔

8۔کیا اس غلط کام کا بھی کوئی کفارہ ہوسکتاہے؟دیگر اور متعلقہ مسائل سے بھی آگاہ کریں۔ مشکور ہونگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اولا تویہ نکاح ہوا ہی نہیں  اس لیے کہ لڑکی سنی ہے اور لڑکا شیعہ ہے جوکہ سنی لڑکی کا کفو نہیں اور سنی لڑکی کا غیر کفو میں والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح ہی نہیں ہوتا۔

ويفتى في غير الكفء بعدم جوازه أصلا وهو المختار للفتوى وفي الشامية قوله وهو المختار للفتوى وقال شمس الأئمة وهذ اأقرب إلى الاحتياط كذا في تصحيح العلامة قاسم  لأنه ليس كل ولي يحسن المرافقة والخصومة ولا كل قاض يعدل ولو أحسن الولي وعدل القاضي فقد يترك أنفه للتردد على أبواب الحكام واستثقالا لنفس الخصومات فيتقرر الضرر مكان منعه دفعا له.(شامی4/ 152)

علاوہ ازیں اگر نکاح کو فرض بھی کرلیں تو چونکہ لڑکی سنی ہے اس لیے طلاق نامہ کی رو سے تمام صحابہ ،تابعین ، محدثین اور ائمہ اربعہ کے مؤقف کے مطابق لڑکی کو تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ اور تین طلاقوں کے بعد اس لڑکی کا لڑکی کے ساتھ رہنااورازدواجی تعلقات برقراررکھنا ناجائز اور حرام ہے۔لہذا دونوں اعتبار سے اس لڑکی پر واجب ہے کہ وہ اس تعلق کو ختم کرے اور لڑکی یہ تعلق ختم نہیں کرتی تو مسلمانوں پرا پنی استطاعت کے بقدر واجب ہے کہ وہ ان دونوں کے اس تعلق کو ختم کروائیں۔

والبدعي ثلاث متفرقة وفي الشامية وكذ ابكلمة واحدة بالأولى …وذهب جمهورالصحابة والتابعين ومن بعدهم من الأئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث ….لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه .(شامی،ص:423،ج:4)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved