• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق بائنہ کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اگر ایک بندہ اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں یہ کہے کہ ’’اگر آپ خاندانی منصوبہ بندی کی وجہ سے ٹیبلیٹ کھاتے ہو تو پھر اپنی گھر چلی جاؤ‘‘۔ لیکن بعد میں بھی وہ وہی ٹیبلیٹ انہوں نے جاری رکھی، نہ چھوڑی۔ صرف اتنے ہی لفظ میں طلاق کا کوئی شبہ ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

یہ جملہ کس نیت سے کہا تھا؟ طلاق کی یا کسی اور نیت سے؟ اور مکمل واقعہ تفصیل سے ذکر کریں۔

جواب وضاحت:

طلاق کی نیت سے تو نہیں کہا تھا، اس نیت سے کہا تھا کہ آپ کی وجہ سے مطلب میں اتنی تکلیفیں اٹھاتا ہوں، سب کچھ برداشت کرتا ہوں، رات کو جو بھی اس نیت سے کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بچہ یا بچی دے دیں، اور آپ بچوں کو پیدا کرنے کے خلاف ٹبلیٹ استعمال کرتی ہو۔ لہذا آپ پھر گھر کو چلی جاؤ۔

اتنی لمبی بات تو نہیں کی تھی لیکن بات کا مطلب یہی ہوتا ہے۔ باقی اس بندے کے چار بچے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کا یہ کہنا کہ” اگر آپ خاندانی منصوبہ بندی کی وجہ سے ٹیبلیٹ (گولی) کھاتی ہو تو اپنے گھر چلی جاؤ” اگر طلاق کی نیت سے نہیں تھا تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ مذکورہ جملہ کنایات طلاق کی پہلی قسم سے ہے جس سے لڑائی جھگڑے میں نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔

نوٹ: طلاق کی نیت نہ ہونے پر شوہر کو بیوی کے سامنے قسم کھانی ہو گی، اگر شوہر قسم کھانے سے انکار کرے تو بیوی اسے اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار کرے گی۔

 

درمختار مع ردالمحتار(4/517) میں ہے:

فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا). وفى الشامية:قوله يحتمل ردا) أي ويصلح جوابا أيضا ولا يصلح سبا ولا شتما ح .

درمختار مع ردالمحتار(4/520) میں ہے:

 ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved