• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق معلق کی ایک صورت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 4 جون 2020 کو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تقریباً رات ساڑھے گیارہ بجے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، کچھ دیر بعد میری اہلیہ نے فیس بک پر خبریں لگائیں اور پھر ایک ڈرامہ لگا کر دیکھنے لگی، میں نے اسے ڈرامہ دیکھنے سے روکا لیکن وہ نہیں رکی اور کہنے لگی کہ میں دو ہی مخصوص ڈرامے دیکھتی ہوں، میں نے اس سے موبائل چھینا اور بے اختیار میرے منہ سے نکلا "اگر تم نے ڈرامہ دیکھا تو تم میرے نکاح میں نہیں”  یہ کہہ کر میں تھوڑی دیر کے لئے تو پریشان ہوا کہ یہ جو الفاظ میں نے کہے ہیں ان کا اطلاق صرف اس ڈرامے پر ہو گا جو وہ دیکھ رہی تھی یا تمام ڈراموں پر ہو گا؟ ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی، میرا مقصود یہ تھا کہ وہ ڈرامہ نہ دیکھے۔یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ تقریبا روزانہ رات کو سونے سے پہلے وہ ڈرامہ دیکھتی تھی جس پر میں اس سے موبائل چھین کر رکھ لیتا تھا لیکن یہ سب نارمل تھا، وہ کچھ نہ کہتی اور اذکار کر کے سو جاتی،اب اس صورتحال میں

(1) کیا میرے الفاظ کا اطلاق اس ڈرامے پر ہوگا جو میری اہلیہ دیکھ رہی تھی یا تمام ڈراموں پر ہوگا ؟

(2) میری اہلیہ اب ڈرامے نہیں دیکھ رہی لیکن اگر کسی جگہ کوئی ڈرامہ چل رہا ہو اور غیر اختیاری طور پر میری بیوی کی نظر پڑ جائے،اس کی دیکھنے کی خواہش نہ ہو تو کیا ہمارا نکاح ٹوٹ جائے گا؟

(3) جان بوجھ کر ڈرامہ دیکھنے کی صورت میں ایک طلاق ہو گی یا تین ؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

(1) شوہر نے مذکورہ جملہ کس حالت میں بولا تھا؟

(2) مذکورہ جملے سے شوہر کی نیت کیا تھی؟ وقتی طور پر روکنا مقصود تھا یا ہمیشہ کے لئے ڈرامہ دیکھنے سے روکنے کی نیت تھی؟

جواب وضاحت:

(1) نارمل حالت تھی، ہنسی مذاق کر رہے تھے، غصہ نہیں تھا۔

(2) ہمیشہ کے لیے روکنے کی نیت تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے ڈرامہ دیکھنے سےشوہرکےحق میں تو  کوئی طلاق واقع نہ ہو گی کیونکہ شوہر کا یہ کہنا کہ "اگر تم نے ڈرامہ دیکھا تو تم میرے نکاح میں نہیں” کنایات طلاق میں سے ہے اور نارمل حالت میں کنایات کی کسی بھی قسم سے شوہر کے حق میں نیت کے بغیر طلاق نہیں ہوتی،مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے یہ جملہ نارمل حالت میں بولا تھا اور اس کی طلاق کی نیت نہیں تھی اس لیئے شوہر کے حق میں تو بیوی کے ڈرامہ دیکھنے سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی، باقی رہی بیوی کی بات ؟ تو اگر شوہر بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے کی قسم دیدے تو بیوی کے حق میں بھی طلاق واقع نہ ہو گی اور اگر شوہر قسم دینے سے انکار کرے تو ڈرامہ دیکھنے کی صورت میں بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی جس کی وجہ سے بیوی کے لیے دوبارہ نکاح کئے بغیر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہ ہو گا۔ ہاں دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

(1) شوہر کے مذکورہ الفاظ کا اطلاق تمام ڈراموں پر ہو گا۔

شامی (5/550) میں ہے:

الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض.

(2) اگر ارادے کے بغیر ڈرامے پر بیوی کی نظر پڑ گئی اور اس نے فورا نظر ہٹا لی تو نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

فتاوی محمویہ (13/34) میں ہے:

سوال :- زید نے عمر کو کہا کہ تو اگرمیری عورت کو دیکھے تو تیری عورت کو طلاق، تو اس وقت عمر نے کہا کہ اگر میں تیری عورت کی طرف دیکھوں یا نظر کروں یا باتیں کروں تو میری عورت کو تین طلاق ، تو اس صورت حال میں کہ عمر راستہ میں کھڑا تھا یا راستے کے اندھیرے میں بیٹھا تھا تو عمر کی نظر زید کی بیوی پر پڑ گئی تو طلاق ہو گئی یا نہیں؟ اگرہوئی تو کتنی ؟ اور طلاق کی قسم کھانا کیسا ہے؟ حالانکہ غصہ میں بغیر سوچے قسم کھائی ہے، جب کہ عمر کا ارادہ نہ تھا کہ یہ زید کی عورت کو دیکھے اوراچانک نظر پڑگئی، امام صاحب اور امام شافعی کا مذہب کیا ہے؟ طلاق پڑتی ہے توکیا حکم ہے؟ اور مغلظہ پڑتی ہے تو کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عمر نے اگر قصداً زید کی عورت کو نہیں دیکھا بلکہ بلا قصد اس پر نظر پڑی اور اس نے فوراً نظر ہٹالی تو اس کی بیوی پر کوئی طلاق نہیں ہوئی، اگر قصداً اس کو دیکھا ہے تو طلاقِ مغلظہ ہوگئی، اب بغیر حلالہ کے تعلقِ زوجیت قائم کرنا درست نہیں ، طلاق کی قسم کا یہی حکم ہے کہ شرط پائے جانے کے بعد طلاق ہوجاتی ہے، غصہ ہو یا رضامند سب کا ایک ہی حکم ہے دل سے نیت ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا یمین فور کا دوسرا حال ہے، کتبِ فقہ حنفی واصولِ فقہ میں اسی طرح مذکورہے۔

(3) اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم نہیں دیتا تو جان بوجھ کر تھوڑی دیر ڈرامہ دیکھنے سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گی۔

درمختار (4/521) میں ہے:

ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.

عالمگیری (1/375) میں ہے:

ولو قال لها لا نكاح بينى و بينك أو قال لم يبق بينى و بينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved