• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تقسیمِ میراث کی ایک صورت

استفتاء

میری والدہ کا رمضان کی ستائیسویں شب کو انتقال ہوا۔ ان کی یہ جائیداد تھی جو انہوں نے اپنی خود کی کمائی سے بنائی تھی والد نے اس میں کچھ نہیں ملایا، ہم اب اس کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ہم تین بہن بھائی ہیں، (دو بھائی٫ 1 بہن)جائیداد ہم دو بھائیوں کے نام انہوں نے اپنی زندگی میں ہی کر دی تھی۔

1۔5 مرلے کا  گھر، دونوں بھائیوں کے نام، جس کی مالیت  تیس لاکھ ہے۔

2۔ دس مرلے کا پلاٹ، دونوں بھائیوں کے نام، جس کی  مالیت پندرہ لاکھ پچاس ہزار ہے۔

3۔ 2 لاکھ کی رقم امی نے اپنی ریٹائرمنٹ پر بہن کو دی تھی  وراثت کے حصے کے طور پر۔

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ ہم اس کو شرعی اعتبار سے کیسے تقسیم کرسکتے ہیں؟ بہن کا کتنا حصہ ہے؟ ہمارے والد زندہ ہیں کیا ان کا بھی والدہ کی جائیداد میں حصہ ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: والدہ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ کیا اس کی کوئی معقول وجہ تھی؟ (2) بیٹی کے حالات کیسے تھے؟

جواب وضاحت: بیٹی کی شادی اچھے گھر میں ہوگئی تھی تو اس لیے انہوں نے ایسا کیا تھا لیکن والدہ کو یہ احساس تھا کہ انہوں نے برابری نہیں کی اور وہ اس کا اظہار بھی کرتی تھیں، اس لیے ہم بھائیوں نے یہ فیصلہ  کیا ہے کہ ان کے آخرت کے مراحل آسان ہوں اور بہن کو اس کا حصہ دیدیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب والدہ کو بھی یہ احساس تھا کہ کہ انہوں نے اولاد کو ہدیہ دینے  میں برابری نہیں کی اور بھائی بھی بہن کو حصہ دینے پر تیار ہیں تو والدہ کی کل جائیداد کو 20 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے آپ کے والد کو پانچ حصے (25فیصد) بیٹوں میں سے ہر ایک کو 6 حصے (30 فیصد فی کس) اور بیٹی کو 3 حصے (15فیصد) ملیں گے اور اگر والد اپنا حصہ نہیں لینا چاہتے تو اس صورت میں کل جائیداد کو 5 حصوں میں تقسیم کرکے دو ، دو حصے ہر بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔

4×5=20       والدہ

شوہربیٹابیٹابیٹی
ربععصبہ
1×53×5
515
663

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved