• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر ہو سکتا ہے؟ اور کورٹ میرج کی کیا حیثیت ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:

مذکورہ سوال پوچھنے کی کیا ضرورت پیش آ رہی ہے؟ اگر کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو اسے تفصیل سے ذکر کریں، نیز سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے ؟ اسے بھی واضح کریں۔

جواب وضاحت:

ایک فیملی نے کورٹ میرج کی تھی بعد میں ان کی طلاق ہوگئی اب ان کو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کا پہلا نکاح ہی نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ ولی کی اجازت کے بغیر تھا ۔

تفصیلی سوال :

السلام علیکم ایک دینی مسئلہ کے بارے میں مجھے کچھ رہنمائی درکار ہے قرآن و حدیث کے حوالہ جات کے ساتھ رہنمائی کریں، میرا تعلق ایک دیوبند گھرانے سے ہے، بارہ سال پہلے میری کورٹ میرج ہوئی تھی، میرے تین بچے بھی ہیں، کچھ سال پہلے میرے خاوند نے ایک گھریلو جھگڑے میں مجھے ایک وقت میں تین دفعہ طلاق دی، میری شادی کے وقت میرا تعلق دیوبند ی گھرانے سے تھا اور اس وقت میں لاعلم تھی کہ نکاح کے لیے ولی کی کیا اہمیت ہے، کچھ سالوں سے میں قرآن کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھ رہی ہوں اور النور انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہوں، میرا رجحان مسلک اہل حدیث کی جانب  زیادہ ہوگیا ہے، قرآن و حدیث کے مطابق ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح باطل ہے، جب میرا نکاح ہوا تب میں دیوبندی  تھی، ان کے مطابق وہ نکاح باطل نہیں ہے 6 سال پہلے جب طلاق ہوئی مسلک دیوبند کے مطابق وہ طلاق واقع ہوگئی تھی اور رجوع کی کوئی گنجائش نہیں تھی جبکہ اہل حدیث کے مطابق وہ ایک طلاق شمار ہوتی ہے، تب فتویٰ لینے کے بعد ہم نے رجوع کر لیا تھا، اس معاملے کو لے کر اللہ تعالی نے میرے دل میں دوبارہ یہ بات ڈالی کہ مجھے پھر سے اس پہ تحقیق کرنی چاہیے، لہذا آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ

1-میرا نکاح باطل ہے یا نہیں؟

2- پچھلے 12 سال کس زمرے میں آئیں گے ؟

3- تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں یا نہیں؟

4- اگر نکاح باطل تھا تو کیا ولی کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے؟

5- اگر نکاح باطل نہیں تھا تو کیا طلاق کے بعد رجوع سے اب تک میں نے ٹھیک زندگی بسر کی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1- نکاح کے وقت چونکہ آپ کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے تھا اور ان کی تحقیق میں ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح ہو جاتا ہے لہذا آپ کا مذکورہ نکاح باطل نہیں بلکہ درست تھا ورنہ لازم آئے گا کہ آپ اب تک گناہ میں مبتلا رہیں۔

درمختار (4/150) میں ہے:

 فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا رضا ولي.

2- چونکہ نکاح درست ہو گیا تھا لہذا آپ کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا ٹھیک تھا۔

3- جب نکاح درست تھا تو تینوں طلاقیں بھی واقع ہو گئی ہیں۔

ہدایہ (2/374) میں ہے:

(وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا)

4- تین طلاقوں کے بعد ولی کی رضامندی سے بھی نکاح نہیں ہو سکتا۔

5- تین طلاقوں کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا لہذا رجوع سے اب تک آپ نے ٹھیک زندگی بسر نہیں کی اور اگر نکاح کو باطل مانیں تو پھر تو نکاح سے لے کر (نہ صرف طلاق کے بعد رجوع سے) اب تک کی زندگی ٹھیک بسر نہیں ہوئی جو مزید بڑا گناہ شمار ہو گی ۔

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز

 له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved