• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت میں اپنا حصہ بھائی کو دے دینے کے بعد دوبارہ مطالبہ کرنا

استفتاء

مفتی صاحب   !   ایک مسئلہ میں راہنمائی فرمائیں کہ آج سے تقریباً 20 سال قبل کی بات ہے ، چونکہ اس وقت میرے مالی حالات بہتر تھے  تو والد صاحب کے ترکہ سے جو میرا  جائیداد کا حصہ بنتا تھا  ( مذکورہ جائیداد  تقریباًایک چودہ  مرلہ کا گھر  ہے  )وہ میں نے معاف کر دیا تھا اور اپنے بھائیوں کو دے دیا تھا اور تحریری دستاویز پر بھی بغیر جبر و اکراہ کے دستخط کردیے تھے ۔  لیکن اب جبکہ جائیداد تقسیم کی جارہی ہے اور میری مالی حالت ٹھیک نہیں ہے میں اپنا حصہ لینا چاہتی ہوں، کیا شرعاً  اس جائیداد میں  اب میرا حصہ بنتا ہے ؟

تحریری دستاویز  کی متعلقہ عبارت درج ذیل ہے :

ما آنکہ مسماۃ ***  بقائمی ہوش و حواس   برضامندی خود اقرار کرتی ہیں  اور لکھ دیتی ہیں  کہ من مقران کی والدہ***اور والد***    قضائے الٰہی سے  فوت  ہوچکے ہیں ۔من مقران کے والد اور والدہ نے ترکہ میں جائیداد نمبر  ۔۔۔۔۔۔تعمیر شدہ پختہ مکان چھوڑا ہے ۔من مقران والدین کی چھوڑی ہوئی  جائیداد میں قانونی ، شرعی  و جائز وارثان ہیں۔ من مقران کے علاوہ   مقران کے تین  بھائی مسمیان  ۔۔۔۔۔۔۔  اس جائیداد میں حصہ دار  ہیں ۔۔۔۔ من مقران نے قانون کے مطابق  اپنا اپنا حصہ برادران  ۔۔۔۔ سے حاصل و وصول کرلیا ہے ۔ اب من مقران کا والدین کی ترکہ میں چھوڑی ہوئی جائیداد  میں کسی قسم کا کوئی عمل دخل  باقی نہ رہا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا ۔ من مقران کی اولاد و جانشینان کا بھی مذکورہ جائیداد سے بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نہ رہا  ۔۔۔۔۔۔سو اب من مقران برضامندی خود جائیداد مذکورہ میں  اپنے اپنے حصہ سے بحق   برادران   ۔۔۔۔۔۔۔۔    دستبردار ہوتے ہیں ۔۔۔۔

سائلہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مذکورہ بیان کی تصدیق کی ۔

***کے بھائی ذاکر کا بیان  :

1999 ء میں ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا  تو ہم نے اپنی بہنوں کو ان کا حصہ دینا چاہا  ۔ دو بہنوں نے  اپنا حصہ لے لیا  جبکہ تین بہنوں نے لینے سے انکار کردیا ۔ غالبا   2003ء میں ہم نے اس ترکہ سے  ان کو حج کروانا چاہا تو اس کو بھی  انہوں  نےقبول نہ کیا اور کہا کہ  ہم نے اپنا حصہ آپ کو دے دیا ہے ۔2005 ء میں ہم بھائیوں نے اپنے حصے اپنے نام کروانے تھے تو بہنوں کا تحریری بیان درکار تھا ، اس موقع پر بھی انہوں نے تحریراً لکھ دیا تھا  ۔  لیکن اس موقع پر بھائی کا انتقال   ہو جانے کی وجہ سے  تقسیم نہ  ہو سکی تھی ۔ اب تقسیم کا ارادہ ہے۔ اس طرح تین الگ الگ موقعوں پر انہوں نے اپنا حصہ نہیں لیا  اور مذکورہ جواب ہی دیا ۔ اب بھی اگر شرعاً ان کا حصہ لینا درست ہے تو میں تیار ہوں ۔ دوسرے بھائی سے اس سلسلہ میں بات نہیں ہوئی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں راجح قول کے مطابق آپ کا اس جائیداد میں حصہ بنتا ہے تاہم ایک مرجوح قول کے مطابق جس پر بعض اہل علم کا فتوی بھی ہے آپ کا اس جائیداد میں حصہ نہیں بنتا لہذا آپ کو تو یہی چاہیے کہ آپ اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں لیکن بھائیوں کو چاہیے کہ وہ آپ کو آپ کا حصہ دے دیں ۔

توجیہ : مذکورہ صورت میں مکان قابل تقسیم ہے اور قابل تقسیم چیز کا تقسیم کیے بغیر ہبہ راجح قول کے مطابق جائز نہیں ، خواہ وہ جائیداد میں شریک کو کیا جائے یا غیر شریک کو کیا جائے  ۔تا ہم ایک روایت کے مطابق جو کہ بعض حضرات کے نزدیک  مفتی بہ ہے شریک ِ جائیداد کو تقسیم سے پہلے بھی  ہبہ درست ہے  ۔جواب میں دونوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔

نوٹ : مذکورہ صورت میں تحریری دستاویز سے ہبہ نہیں ہوا کیونکہ تحریری دستاویز میں صرف دستبرداری کا ذکر ہے اور اعیان سے دستبرداری باطل ( بے فائدہ) ہے ۔ تاہم بہنوں نے جو یہ الفاظ کہے کہ  ” ہم نے اپنا حصہ آپ کو دے دیا ہے ” ان کی رو سے ہبہ ہو گیا  ۔یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ صورت میں یہ ہبہ مختلف فیہ  ہے ۔

«بدائع الصنائع   (6/ 121) میں ہے :

فأبو ‌حنيفة ‌يعتبر ‌الشيوع عند القبض وهما يعتبرانه عند العقد والقبض جميعا فلم يجوز أبو حنيفة هبة الواحد من اثنين لوجود الشياع وقت القبض وهما جوزاها لأنه لم يوجد الشياع في الحالين بل وجد أحدهما دون الآخر وجوزوا هبة الاثنين من واحد.

(أما) أبو حنيفة رحمه الله فلعدم الشيوع في وقت القبض.

(وأما) هما فلانعدامه في الحالين لأنه وجد عند العقد ولم يوجد عند القبض ومدار الخلاف بينهم على حرف وهو أن هبة الدار من رجلين تمليك كل الدار جملة أو تمليك من أحدهما والنصف من الآخر فعند أبي حنيفة تمليك النصف من أحدهما والنصف من الآخر فيكون هبة المشاع فيما ينقسم كأنه أفرد تمليك كل نصف من كل واحد منهما بعقد على حدة وعندهما هي تمليك الكل منهما إلا تمليك النصف من هذا والنصف من ذلك فلا يكون تمليك الشائع فيجوز»

تکملہ حاشیہ ابن عابدین  (8/ 208) میں ہے :

«ولو قال ‌تركت ‌حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه»

المحيط  البرہانی(6/ 239) میں ہے :

«فالشيوع من الطرفين مانع صحة الهبة ‌وتمامها ‌بالإجماع، ومن طرف الموهوب له مانع عند أبي حنيفة خلافاً لهما»

فتاوی  عالمگیری  (4/ 378)  میں ہے :

«‌والشيوع ‌من ‌الطرفين فيما يحتمل القسمة مانع من جواز الهبة بالإجماع، وأما الشيوع من طرف الموهوب له فمانع من جواز الهبة عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى خلافا لهما، كذا في الذخيرة»

الدر المختار (8/576) میں ہے:

(لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لاجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي: وقيل يجوز لشريكه وهو المختار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved