• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

یہ سمجھ کر کہ حالت حمل میں طلاق نہیں ہوتی ،تین طلاق دےدیں

استفتاء

میرا نام **** ہے میری شادی 2008ء میں ہوئی تقریبا دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا بیٹا  جب ایک سال کا تھا تو ایک طلاق دی۔ اس وقت میں شدید غصے میں تھامجھے کچھ پتہ نہیں چلا اور میرے ہوش وحواس قائم نہیں تھے میں نے بیوی کو دھکا دیا اور کہہ دیا ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر میں بیٹھ گیا پھر زمین پر لیٹ گیا۔ پھر اسی دن ہماری صلح ہوگئی اور ہم اکٹھے رہنے لگے۔ مجھے پہلے کبھی ایسا غصہ نہیں آیا تھا۔

چار سال بعد جب دوسرا بچہ پیدا ہونے والا تھا اس وقت میری بیوی ڈپریشن کی مریضہ تھی اور اسے غلط فہمی تھی کہ جب بچہ پیدا ہونے والا ہوتو طلاق نہیں ہوتی اسے غصہ انتہا کا آیا ہوا تھا اور وہ بار بار مجھ سے طلاق کا مطالبہ کررہی تھی کہ مجھے کونسا طلاق ہونی ہے۔ طلاق اس وقت بھی میں نہیں دینا چاہتا تھا اور اسے کہہ دیا تھا کہ طلاق بعد میں دوں گا لیکن غلط فہمی کی بنا پر مجھے اکسا رہی تھی تو اس وقت میں نے دو تین مرتبہ طلاق کے لفظ بولے تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ غالبا تین مرتبہ کہے تھے۔ اور اس وقت میرے ہوش وحواس قائم تھے۔ مفتی سے فتویٰ لیا تھا تو انہوں نے کہا تھا ایک طلاق ہوئی ہے۔

اب دو دن پہلے جھگڑا ہوا تھا کہ میری بیوی اور بھابھی لڑ رہی تھیں۔ شام کے وقت میں کام سے واپس آیا تو میں نے جھگڑا ختم کرانے کی کوشش کی (اب یہ بھی یاد رہے کہ میری بیوی ڈپریشن کی زیادہ مریضہ ہے اور دوائیاں کھارہی ہے) میری بیوی کی غصے کی انتہا دیکھ کر میں بھی ہوش وحواس میں نہیں رہا اور میں طلاق دینا نہیں چاہتا تھا اور مجھے پتہ نہیں چلا کہ میرے منہ سے لفظ طلاق کیسے نکل گیا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘

(نوٹ: اسلام کی لاعلمی کی بنا پر کہ بچے کی پیدائش کے وقت بیوی حاملہ ہوتو طلاق نہیں ہوتی، اس لاعلمی کی وجہ سے دوسری طلاق دی)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: جب شوہر نے پہلی دفعہ یہ جملہ بولا تھا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی۔ اس وقت شوہر کو اگرچہ غصہ آیا ہوا تھا لیکن اس سے خلاف عادت کوئی فعل سرزد نہیں ہوا کہ جس کی بنا پر کہا جاسکے کہ شوہر کے ہوش وحواس قائم نہیں تھے۔

اس طلاق کے بعد رجوع ہوگیا تھا اس لیے نکاح باقی رہا۔ پھر اس کے چار سال بعد جب شوہر نے دو تین بار طلاق کے الفاظ بولے تو اس سے دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

اور اگر بیوی کو دھکا دینا اور زمین پر لیٹنا خلافِ عادت مانتے ہوئے یہ کہا جائے کہ طلاق واقع نہیں ہوئی تو پھر بھی اس کے چار سال بعد جب شوہر نے اپنے غالب گمان کے مطابق دوبارہ تین مرتبہ یہ جملہ بولا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں کیونکہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو تینوں واقع ہوجاتی ہیں اور حالتِ حمل میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس سے لاعلمی عذر نہیں بن سکتی۔

در مختار مع رد المحتار (4/439)میں ہے:

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك الصحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

نیز (509/4) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

نیز (193/5) میں ہے:

(قوله لتفرغها للعلم) أي لأنها تتفرغ لمعرفة أحكام الشرع والدار دار العلم فلم تعذر بالجهل بحر أي أنها يمكنها التفرغ للتعلم لفقد ما يمنعها منه

بدائع الصنائع (295/3) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved