• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوٰة کی ادائیگی میں یومِ وجوب کا اعتبار

استفتاء

***کے پاس 10 تولہ سونے کا زیور ہے اس نے گذشتہ دس سال کی زکوٰة ادا نہیں کی۔ اب وہ زکوٰة ادا کرنا چاہتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا زکوٰة میں سونے کے گذشتہ سالوں کے ریٹ کو دیکھا جائے گا یا آج کے ریٹ کو جبکہ زکوٰة ادا کی جا رہی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

گذشتہ سالوں میں سے ہر ہر سال کے سونے کے ریٹ کے مطابق زکوٰة کا حساب لگا کر  زکوٰة ادا کی جائے اگر گذشتہ سالوں کے ریٹ کا حتمی علم نہیں تو اندازہ لگایا جائے گا۔ احتیاطاً کچھ زیادہ زکوٰة ہی ادا کر دی جائے۔

و في الشرح تعتبر القيمة يوم الوجوب و قالا يوم الأداء و في السوائم يوم الأداء إجماعاً و هو الأصح. (رد المحتار: 2/ 24، أحسن الفتاوی: 4/ 278)

توجیہ: امام  صاحب کے نزدیک زکوٰۃ میں یوم الوجوب کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک یوم الادا کی قیمت کا الا السوائم۔ مذکورہ بالا مسائل کے جواب امام صاحب رحمہ اللہ کے قول پر دیے گئے ہیں کہ یوم الوجوب کی قیمت کا

اعتبار کیا جائے گا۔ اس قول کی وجوہِ ترجیح درج ذیل ہیں:

1۔ یہ امام صاحب کا قول ہے اور امام صاحب کا قول عبادات میں ترجیح کا حامل ہوتا ہے۔

2۔ بعض صورتوں میں یہ قول انفع للفقراء بھی ہے مثلاً جب وجوب اور ادا کے درمیان سونے کی قیمت کم ہو جائے جب کہ اس کے بالمقابل قول بھی ہر حال میں انفع للفقراء نہیں ہے۔

3۔  اس قول میں سہولت ہے کیونکہ اگر زکوٰۃ تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کی جائے اور ہر ہفتے یا ہر دوسرے دن ادا کی جائے تو یوم الادا کی قیمت کے اعتبار کی صورت میں ہر دفعہ قابل زکوٰۃ اثاثوں کی قیمت لگانی پڑے گی، جس میں اچھی خاصی مشقت ہے۔ جبکہ یوم الوجوب کی قیمت کا اعتبار کریں تو یہ مشقت پیش نہیں آتی۔

4۔ احسن الفتاویٰ میں بھی یوم الوجوب کا قول اختیار کیا گیا ہے۔ (4/ 278)

سونے چاندی کی زکوٰۃ کی ادائیگی میں تین صورتیں بنتی ہیں:

صورت 1: عین اسی سونے چاندی میں سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اس میں سونے چاندی کے وزن کا اعتبار کیا جائے گا، نہ کہ قیمت کا۔

صورت 2: زکوٰۃ عین اسی سونے چاندی میں سے نہیں، لیکن اسی جنس سے ادا کی جائے مثلاً سونے کی ڈلی کی زکوٰۃدینا (سونے کے سکے) سے ادا کی جائے۔ اس صورت میں شیخین (امام صاحب اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ) کے نزدیک وزن کا اعتبار کیا جائے گا، نہ کہ قیمت کا۔ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک انفع للفقراء کا اعتبار کیا جائے گا۔

صورت 3: زکوٰۃ خلاف جنس سے ادا کی جائے مثلاً کرنسی وغیرہ، اس میں بالاتفاق قیمت کا اعتبار کیا جائے اور قیمت سے مراد مارکیٹ ویلیو ہے۔

لو کان إبريق فضة وزنه مائتان و قيمته ثلاثمائة إن أدی من عينه فلا كلام، أو من غيره جاز عندهما خلافاً لمحمد و زفر إلا أن يودي الفضل و أجمعوا أنه لو أدی من خلاف جنسه اعتبر القيمة. (رد المحتار: 3/ 270) فقط و الله تعالی أعلم

نوٹ: مندرجہ بالا فتویٰ جاری ہونے کے بعد حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم سے درج ذیل استفسار کیا گیا:

"ہمارے یہاں سے پہلے جاری ہونے والے فتاویٰ (مثلاً 3/ 24، 2/ 121) میں زکوٰۃ کی ادائیگی میں یوم الاداء پر فتویٰ دیا جاتا رہا ہے۔ جبکہ ابھی حالیہ جواب میں یوم الوجوب کے قول کو لے کر جواب دیا گیا ہے۔ یہ جوابات باہم متعارض ہیں۔ کیا ان فتاویٰ میں باہم کوئی تطبیق کی صورت اختیار کی جائے گی یا اس آخر جواب کو پہلے فتاویٰ کے لیے ناسخ اور اس قول سے رجوع سمجھا جائے گا؟” (از دار الافتاء)

حضرت مفتی صاحب نے یہ جواب لکھا:

موجودہ سالوں میں جس شدت سے سونے کے نرخ بڑھے ہیں اس کی وجہ سے خیال ہوا کہ وجوب کے دن کی ادائیگی سہل ہو گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved