• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک بھائی کی وفات کے بعد دوسرے بھائی کا اس کے کاروبار کو سنبھالناا ور اسی میں سے ورثاء کو حصے دینا

استفتاء

9 ماہ قبل ہمارے بڑے بھائی*** کا انتقال ہوا۔مرحوم کی میکلوڈ روڈ پر موٹر سائیکل کے سپئیر پارٹس کی دوکان تھی۔مرحوم کی وفات کے بعد اُن کے چھوٹے بھائی ***(بندہ) کو دوکان کی ذمہ داری دی گئی ۔ مرحوم کے ورثاء میں ایک بیوہ اور چار نا بالغ  بیٹیاں ہیں اور ہمارے والد صاحب بھی حیات ہیں جبکہ والدہ کا انتقال مرحوم کی وفات کے دو ماہ بعد ہوا ۔ وفات  کے وقت والدہ کے ورثاء میں شوہر، چار بیٹےاور تین بیٹیاں تھی اور والدہ کے والدین وفات پاچکے تھے۔ بندہ نے مفتی رفیق صاحب کے مشورہ سے یہ طے کیا کہ مال مرحوم کا ہوگا اور بندہ بطور عامل کام کرے گا اور نفع آدھا آدھا ہوگا ۔ آٹھ ماہ سے تقریباً اسی ترتیب پر کام کر رہا ہوں اور ہر ماہ مرحوم کی بیوہ اور بچیوں کو ضرورت کے بقدر 20 ہزار سے پچیس ہزار تک خرچہ دے رہا ہوں۔ اس کےعلاوہ دیگر اخراجات بجلی کا بل،اسفار اور عید وغیرہ پر خرچ کرتا رہا ہوں ۔ لیکن ان سب معاملات کا کوئی تحریری ریکارڈ نہیں ہے ۔ بندہ اب پریشان ہے کہ اب بندہ کی شادی بھی ہو گئی ہے اور بہت سے ایسے خرچے ہیں جن کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ بیوہ اور یتیموں کی حق تلفی ہو جائے۔ اس وجہ سےبندہ وراثت کا حساب کر کے حصے دینا چاہتا ہے ۔ اس حوالے سے کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :

  1. مالی اور کاروباری حالت ایسی نہیں ہے کہ ایک دم سارے حصے ادا کر دئیے جائیں کیونکہ دوکان پر جتنا مال ہے وہ مرحوم کا ہے اور بندہ وہاں عامل ہے ۔ اگر فورا سارے حصے ادا کرنے ہوں تو سارا مال فروخت کر کے دوکان بند کر کے ادا کئے جائیں گے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لہذا آسان ادائیگی کی صورت بتا دیں جس سے کاروبار میں بھی حرج نہ آئے اور بندہ بھی گناہ گار نہ ہو۔

2۔ ہمارا ارادہ ہے کہ مرحوم کی بیوہ کی شادی کر دی جائے ۔شادی کرنے کی صورت میں اگر ہم حصہ دیں تو کیسے دیں؟ نیز بچیوں کو ان کے چچا اپنی رضا مندی سے اپنے پاس رکھیں گے لہذا ان کا حصہ کس طرح ادا کریں۔ اور اگر بیوہ شادی سے انکار کرے تو حصہ کی ادائیگی کس طرح ہو گی ؟

3۔بیوہ کے حصہ کی ادائیگی کے دوران اس کے اخراجات کس کے ذمے ہیں ؟

4۔مرحوم کی دوکان میں مال سارا مرحوم کا ہے البتہ دوکان والدہ مرحومہ کی ملکیت تھی ۔ خریدتے وقت 60 لاکھ والدہ کے تھے ۔کچھ پیسے کم ہو رہے تھے وہ بھائیوں نے بطور قرض دئیے تھے ۔ جس میں مرحوم نے بھی پانچ لاکھ دئیے تھے ۔ ان کا کیا ہو گا ؟

تنقیح:(1) نفع حساب کتاب کرکے تقسیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ میں ہر ماہ بیس پچیس ہزار بغیر حساب کیے دیتا رہا۔اسی طرح عید وغیرہ پر بغیر حساب کیے خرچ کرتا رہا ۔میں نے اپنا پانچ لاکھ بھی اس کاروبار میں شامل کیا تھا جو کہ اب نکال لیا

 

ہے ۔ میں نے ایک گاڑی خریدی تو رشتہ داروں نے کہا کہ یہ بیوہ اور یتیم بچوں کا مال ہے ۔ میں نے ذکر کیا کہ میں نے اس کاروبار میں اپنے پانچ لاکھ بھی شامل کیے ہیں یہ اس میں سے لی ہے۔ اس لیے حصہ دینا چاہتا ہوں تاکہ یتیموں کی حق تلفی نہ ہو جائے ۔ (2)والدہ کی ملکیت والی دوکان ابھی ہم تقسیم نہیں کرنا چاہ رہے ۔ سب ورثاء اس بات پر راضی ہیں کہ مرحوم کا کاروبار اس دوکان میں چلتا رہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-3۔ مرحوم کے کل مال میں مرحوم کے والد ،والدہ ،بیوہ اور نابالغ بچیوں کا حصہ ہے۔ والدہ کا 6/1 بیوہ کا 8/1 نابالغ بچیوں کا 3/2 اور باقی سارا مرحوم کے والد کا ہے ، پھر والدہ کے 6/1 میں سے ان کے شوہر یعنی آپ کے والد کو 25 فیصد اور ہر بیٹے یعنی آپ چار بھائیوں میں سے ہر ایک کو 13.636 فیصد اور تین بیٹیوں یعنی آپ کی بہنوں میں سے ہر ایک کو 6.818 فیصد ملے گا۔ آپ اس وراثت میں سے اپنے حصے یعنی 13.636 فیصد کے خود مالک ہیں اس کا آپ جو چاہیں کریں اور بقیہ ورثاء میں سے جو عاقل بالغ ہیں یعنی آپ کے بھائی کی بیوہ، آپ کے والد اور آپ کے باقی بہن بھائی یہ سب بھی اپنے اپنے حصوں کے بقدر آزا د ہیں، چاہیں تو کاروبار سے سامان کی صورت میں حصہ لے لیں یا  آپ کے حصے کے علاوہ سامان آپ کو یا کسی اور کو فروخت کر کے قیمت لے لیں یا آپ کے حصے کے علاوہ کاروبار آپ کو یا کسی اور کو مضاربت پر دے دیں یہ ان کی صوابدید پر ہے ۔ اور نابالغ بچیوں کے حصے میں ولایت دادا کو حاصل ہے ۔ ان کی مصلحت کی موافق دادا جو تصرف مناسب سمجھے کر سکتا ہے۔ چاہے نابالغ بچیوں کا حصہ سامان کی صورت میں وصول کر لے،یاآپ کو یا کسی اور کو سامان فروخت کر کے قیمت کو سنبھال لے یا قیمت سے سونا خرید کر بچیوں کے لیے محفوظ کر دے ۔ غرض ان کے لیے جو تصرف زیادہ نفع کا باعث ہو دادا وہ تصرف کر سکتا ہے ۔ لہذا حصہ دینے کا اختیار آپ کے پاس نہیں ہے۔آپ کی حیثیت اس کاروبار میں عامل کی ہے  اور والدہ کی وفات کی وجہ سے اس کاروبار سے ان کو ملنے والے 6/1 حصہ میں  سے13.636% آپ کا ہےاور اگرورثاء  آپ کو ہی مال مضاربت پر دینے پر آمادہ ہوں تو آپ کے حصے کے بقدر نفع آپ کا ہوگا اور باقی نفع آدھا آدھا  ہوگا  جس میں سے آدھا مرحوم کےورثاء میں شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا اور آدھا آپ کا ہوگا لہٰذا  اس صورت میں آپ کو چاہیے  کہ صحیح حساب کرکے تقسیم کریں، اندازے سے کام نہ لیں۔

نیز شادی کرنے یا نہ کرنے بہ ہر دو صورت بیوہ کو مذکورہ بالا اختیار حاصل ہوں گے اور بیوہ کا حصہ 8/1  ہی  رہے گا۔

4۔مرحوم کے دئیے ہوئے پانچ لاکھ والدہ کے ذمے قرض شمار ہوں گے ۔ جو کہ والدہ کی وراثت تقسیم کرنے سے پہلے مرحوم کے ورثاء (بیوہ،نابالغ بچیوں اور مرحوم کے والد اور والدہ کے ورثاء کے درمیان) شرعی حصوں  (شوہر%25،چار بیٹے %13.636 فی کس اور تین بیٹیاں%6.818فی کس)   کے اعتبار سے تقسیم ہوں گے۔

بدائع الصنائع (5/153) میں ہے:

(وأما) الذي يرجع إلى المولى فيه فهو أن لا يكون من التصرفات الضارة بالمولى عليه لقوله عليه الصلاة والسلام «لا ضرر، ولا ضرار في الإسلام» ، وقال عليه الصلاة والسلام:من لم يرحم صغيرنا فليس منا، والإضرار بالصغير ‌ليس ‌من ‌المرحمة في شيء فليس له أن يهب مال الصغير من غيره بغير عوض؛ لأنه إزالة ملكه من غير عوض فكان ضررا محضا وكذا ليس له أن يهب بعوض عند أبي حنيفة، وأبي يوسف، وعند محمد له ذلك ………..  بخلاف البيع لأنه معاوضة ابتداء وانتهاء، وهو يملك المعاوضة، وليس له أن يتصدق بماله، ولا أن يوصي به؛ لأن التصدق والوصية إزالة الملك من غير عوض مالي، فكان ضررا فلا يملكه، وليس له

أن يطلق امرأته؛ لأن الطلاق من التصرفات الضارة المحضة، وليس له أن يعتق عبده سواء كان بعوض أو بغير عوض، أما بغير عوض؛ فلأنه ضرر محض، وكذا بعوض؛ لأنه لا يقابله العوض للحال؛ لأن العتق معلق بنفس القبول، وإذا أعتق بنفس القبول يبقى الدين في ذمة المفلس، وقد يحصل، وقد لا يحصل فكان الإعتاق ضررا محضا للحال، وكذا ليس له أن يقرض ماله؛ لأن القرض إزالة الملك من غير عوض للحال، وهو معنى قولهم: القرض تبرع، وهو لا يملك سائر التبرعات، كذا هذا، بخلاف القاضي فإنه يقرض مال اليتيم ………….  وليس لغير القاضي هذه الولاية فبقي الإقراض منه إزالة الملك من غير أن يقابله عوض للحال فكان ضررا فلا يملكه، وله أن يدين ماله من غيره، وصورة الاستدانة أن يطلب إنسان من غير الأب أو الوصي أن يبيعه شيئا من أموال الصغير بمثل قيمته حتى يجعل أصل الشيء ملكه، وثمن المبيع دينا عليه ليرده، فإن باعه منه بزيادة على قيمته فهو عينه، وإنما ملك الإدانة، ولم يملك القرض؛ لأن الإدانة بيع ماله بمثل قيمته، وليس له أن يزوج عبده؛ لأنه يتعلق المهر برقبته، وفيه ضرر، وليس له أن يبيع ماله بأقل من قيمته قدر ما لا يتغابن الناس فيه عادة، ولو باع لا ينفذ بيعه؛ لأنه ضرر في حقه، وكذا ليس له أن يؤاجر نفسه أو ماله بأقل من أجرة المثل قدر ما لا يتغابن الناس فيه عادة، وليس له أن يشتري بماله شيئا بأكثر من قيمته قدر ما لا يتغابن الناس فيه عادة لما قلنا، ولو اشترى ينفذ عليه، ويكون المشترى له؛ لأن الشراء وجد نفاذا على المشتري، وله أن يقبل الهبة والصدقة والوصية؛ لأن ذلك نفع محض فيملكه الولي، وقال عليه الصلاة والسلام:خير الناس من ينفع الناس» ، وهذا يجري مجرى الحث على النفع، والحث على النفع ممن لا يملك النفع عبث، وله أن يزوج أمته؛ لأنه نفع، وله أن يبيع ماله بأكثر من قيمته ويشتري له شيئا بأقل من قيمته لما قلنا، وله أن يبيعه بمثل قيمته، وبأقل من قيمته مقدار ما يتغابن الناس فيه عادة، وله أن يشتري له شيئا بمثل قيمته وبأكثر من قيمته قدر ما يتغابن الناس فيه عادة، وكذا له أن يؤاجر نفسه وماله بأكثر من أجر مثله أو بأجر مثله أو بأقل منه قدر ما يتغابن الناس فيه عادة وكذا له أن يستأجر له شيئا بأقل من أجر المثل أو بأجر المثل أو بأكثر منه قدر ما يتغابن الناس فيه عادة، ولو آجر نفسه أو ماله ثم بلغ الصبي في المدة فله الخيار في إجارة النفس إن شاء مضى عليها، وإن شاء أبطلها، ولا خيار له في إجارة المال …………….. وله أن يسافر بماله وله أن يدفع ماله مضاربة، وله أن يبضع، وله أن يوكل بالبيع والشراء والإجارة والاستئجار؛ لأن هذه الأشياء من توابع التجارة، فكل من ملك التجارة يملك ما هو من توابعها………….. (منها) : أن الأب أو الجد إذا اشترى مال الصغير لنفسه أو باع مال نفسه من الصغير بمثل قيمته أو بأقل جاز، ولو فعل الوصي ذلك لا يجوز عند محمد أصلا، وعند أبي حنيفة، وأبي يوسف إن كان خيرا لليتيم جاز، وإلا فلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved