• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بہنوں کا اپنے حصے میں سے والد کے لیے گھر تعمیر کروانا

استفتاء

ہمارے والد نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کر دی تھی ۔ بھائیوں نے اپنا حصہ لے لیا تھا ۔ میں سعودیہ میں ہوتی تھی ،اور میری چھوٹی بہن راولپنڈی میں ۔ اس لیے میرے  والد صاحب نے ہمارا حصہ اپنے پاس نقد کی صورت میں محفوظ کر لیا تھا ۔ والد صاحب نے مکان وغیرہ بیچ دیا تھا اس لیے اب چھوٹے بھائی کے ساتھ کرایہ پر رہنا چاہتے تھے ۔ ہمیں یہ مناسب نہ لگا کہ وہ کرایہ پر رہیں۔ اس لیے ہم دونوں بہنوں نے کہا کہ ہمارے پیسوں سے والد صاحب اور والدہ کے لیے مکان بنا لیا جائے تاکہ وہ اس میں رہیں اور جب میں سعودیہ سے آؤں گی تو مجھے بھی دشواری نہیں ہوگی کیونکہ میں بھی اس مکان میں رہ لیا کروں گی۔ چنانچہ ہم بہنوں کے حصے سے اور کچھ پیسے بھائی نے ملا کر زمین خرید لی ۔اور پھر بھائی نے اس پر گھر بنا لیا ۔ چونکہ ہم دونوں بہنیں موجود نہیں تھیں اس لیے یہ سارا معاملہ فون پر طے پایا۔ لیکن حصہ واپس کرنے کی کوئی صورت طے نہیں کی گئی تھی کہ بھائی ہمیں یہ حصہ کیسے واپس کرے گا ۔ اور جب رجسٹری کا وقت آیا تو بھائی نے مجھے فون کیا کہ آپ کا نام بھی لکھوانا ہے کیا کروں ؟ میں نے کہا میں سعودیہ میں ہوں کسی بھی قانونی کاروائی کے لیے بروقت پاکستان نہیں آ سکتی اس لیے آپ اپنے نام ہی کروا لو ۔ ہمارا حصہ زمین میں ہوگا یا تعمیر میں اور اس حصہ پر زکوۃ ادا کرنی پڑے گی یا نہیں ؟

جبکہ ہمارے بھائی کا خیال ہے کہ ہمارا حصہ قرض کی صورت میں ہے ۔ جبکہ دیتے وقت کوئی صورت طے نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ میری سوچ یہ تھی کہ میرا مکان میں حصہ ہو گا تو مجھے پاکستان جا کر رہائش کا مسئلہ نہیں ہوگا ۔ ہمارے والد ابھی حیات ہیں۔ والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔مکان میں ابھی والد صاحب اسی بھائی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

بھائی کا موقف :

والد صاحب نے زندگی میں جائداد تقسیم کی ہے ۔ جس میں سے کچھ بھائیوں کو کاروبار سے حصہ ملا اور کچھ کو گھر سے ۔ گھر والے حصہ میں دو بہنوں کا بھی حصہ تھا ۔ جب مکان بیچا تو بھائیوں کا حصہ ان کو دے دیا گیا اور بہنوں کا حصہ والد صاحب کے پاس محفوظ پڑا رہا ۔ والد صاحب کرایہ پر رہنا چاہتے تھے ۔ میں نے کہا کہ میں کسی بھی صورت میں والدین کو کرایہ پر نہیں رکھوں گا ۔ میں نے اس خیال کا اظہار اپنی بہنوں سے کیا تو بہنوں نے بھی کہا ٹھیک ہے ۔ چنانچہ تقریبا 27 لاکھ کی زمین خریدی گئی جس میں دونوں بہنوں اور میرے برابر پیسے تھے ۔ یعنی 9 لاکھ کے قریب قریب ایک بہن کا حصہ تھا باقی 9 لاکھ میں نے اپنے  کاروبار سے ڈالے۔ پھر تعمیر  بھی میرے اور ابو کے پیسوں سے ہوئی ۔ ایک مرتبہ جب ہماری بڑی بہن سعودیہ سے آئی تو میں نے اس سے ارادہ پوچھا ۔ اس نے کہا کہ میں یہاں رہنا چاہتی ہوں ۔ چناچہ اگلی مرتبہ جب وہ آئی تو رہنا شروع کر دیا  اب وہاں نہیں رہ رہی۔ اسی طرح چھوٹی بہن نے مجھے کہا کہ سارے معاملہ کی لکھت پڑھت ہونی چاہیے چنانچہ ہم سب والد صاحب سمیت اپنے بڑے بھائی کے گھر جمع ہوئے تو یہ طے پایا کہ9 ،9 لاکھ بہنوں کا میرے ذمہ قرض ہو گا ۔ جس کے لیے مجھے پانچ سال مہلت دی جائے گی ۔ 2019 میں یہ بات طے ہوئی کہ 2024 تک میں جیسے کیسے بہنوں کا حق ادا کروں گا ۔ لہذا میں اس بات پر قائم ہوں اور حق ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ بڑی بہن کہہ رہی ہیں کہ میں نے پیسے انویسٹمنٹ کے لیے دئیے تھے لہذا مجھے حصہ مکان سے ملے گا ۔ میں نے کہا ہے کہ مکان کی قیمت تو بڑھتی رہے گی ۔ میں کیسے ادا کر سکوں گا ۔ مثلا آج دس لاکھ دینا ہے میں وہ جمع کرنا شروع کروں گا اتنی دیر  میں قیمت بارہ لاکھ ہو جائے گی ۔

بھائی کے موقف پر بہن کا بیان :

بھائی نے کہا تھا کہ اب تک تو یہ حصہ گھر میں تھا لیکن اب میں آپ کو قرض میں ادا کروں گا، ہم نے بھی اس وقت O.K (اوکے) کردیا تھا۔ اس وقت  یہ معاملہ طے پایا تھا کہ بھائی کے ذمے ہمارے پیسے قرض ہیں ۔ لہذا پانچ سال کی مہلت کے بعد بھائی ہمیں ہمارے حصہ کے بقدر جو پیسے شامل کیے تھے وہ ادا کرے گا۔ لیکن اس وقت مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اگر قرض شمار کیا گیا تو مجھے زکوۃ بھی ادا کرنی پڑے گی ۔ اور اب اگر گزشتہ سالوں کی زکوة بھی شمار کی جائے تو ہمارا حصہ تو بہت کم رہ جائے گا ۔ ہم عورتیں ہیں ۔ ہمیں ان معاملات کا علم نہیں تھا ۔ لہذا اب دونوں بہنیں اس معاہدہ کا انکار کرتی ہیں اور گھر کی قیمت  میں جو اضافہ ہوا وہ  اس میں سے حصہ لینا چاہتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کا والد صاحب کی وراثت سے ملنے والا حصہ 9 لاکھ بھائی کے ذمے قرض شمار ہوگا ۔ اور جس وقت معاہدہ ہوا تھا کہ آپ کا حصہ 9 لاکھ بھائی کے ذمے قرض ہو گا اس وقت کے بعد کی زکوة بھی آپ کے ذمے ہے اور جو ہر سال ساتھ ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہے اور جب بھائی سے پیسے ملیں اس وقت بھی ادا  کی جا سکتی ہے، پہلے ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

توجیہ: والد صاحب نے زندگی میں وراثت تقسیم کی اور بیٹیوں کا حصہ محفوظ کر دیا ۔پھر جب بہنوں نے والد صاحب کے لیے گھر بنانے کا ارادہ کیا اور بھائی سے کہا کہ ان کے پیسے شامل کر لیں تو بھائی نے بطور وکیل بہنوں کی طرف سے قبضہ کر لیا اور زمین خریدی جس کی وجہ سے بھائی اور بہنوں کی اس زمین میں شرکت ملک قائم ہو گئی ۔ بہنیں اپنے حصے کے بقدر آزاد تھیں ۔زمین سے بھی حصہ لے سکتی تھیں اور بھائی کو فروخت کر کے پیسوں کی صورت میں بھی لے سکتی تھیں۔ لیکن جب والد صاحب کی نگرانی میں بیٹھ کر یہ طے پا گیا کہ بہنوں کا 9,9 لاکھ بھائی کے ذمے قرض ہے تو گویا بھائی نے بہنوں سے ان کا حصہ خرید لیا ۔اور بہنوں کا 9,9 لاکھ بھائی کے ذمہ قرض آگیا جو مقررہ وقت پر بھائی بہنوں کو ادا کرے گا ۔

بدائع الصنائع (2/ 9) میں ہے:

 وتجب الزكاة في الدين مع عدم القبض وتجب في المدفون في البيت فثبت أن الزكاة وظيفة الملك والملك موجود فتجب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بالأداء للحال لعجزه عن الأداء لبعد يده عنه وهذا لا ينفي الوجوب.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved