• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر بعض ورثاء اپنا حصہ معاف کردیں تو وراثت کا حکم

استفتاء

ہم 11 بھائی بہن تھے) 6 بھائی اور 5 بہنیں( ہمارے والد صاحب نے un-authorized [ کچی آبادی] میں مکان بنایا تھا، یہ گھر چونکہ کچی آبادی میں ہے اس لیے اسکے کوئی documents (کاغذات) نہیں  ہوتے، والد صاحب کا انتقال 1989 میں ہوگیا، والد صاحب کے انتقال کے وقت میری عمر تقریباً 16 سال تھی جبکہ مجھ سے چھوٹے 5 بھائی اور بہنیں ہیں تو تقریباً یہ سب اس وقت نابالغ تھے۔ 2008 میں ہماری بڑی بہن کا انتقال ہوا جنکی اس وقت ایک بیٹی اور شوہر تھے جو بعد میں 2011 یا 2012 میں فوت ہوئے، 2015 میں ہماری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔میں 2007 سے علیحدہ کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، البتہ 2011 سے 2014 تک اس ہی گھر میں رہائش کر لی تھی، پھر دوبارہ 2014 سے کرائے کے مکان میں رہ رہا ہوں۔ والد صاحب کے چھوڑے ہوئے اس مکان میں 4 بھائی بمعہ اہل و عیال ره رہے ہیں۔ الحمد لله تمام بهائی  بہن شادی شدہ ہیں۔ ايك بھائی نے ہم سب سے ملنا جلنا چھوڑا ہوا ہے، میں نے پچھلے اتنے عرصہ میں کئی مرتبہ کوشش کی اور ان سے ملاقات کر کے انکی غلط فہمی دور کرنے کے کوشش کی لیکن وہ کچھ بھی بات کسی بھی طریقے سے ماننے کو تیار نہیں ، انکی اپنی کوئی اولاد بھی نہیں لیکن میں نے جب بھی ان کے گھر جا کر انکومنانے کی کوشش کی ہے وہ گالیاں بك كر گھر سے نکال دیتے ہیں۔ وہ کسی بھی صورت کوئی بھی بات سننے کے روادار نہیں، انکی زبان پر بس ایک ہی جملہ رہتا ہے کہ میرے لئے تم سب مر چکے ہو۔ یہاں تك كہ جب انکو حدیث کے حوالے سے قطع تعلق کی وعید بتائی جائے تو وہ  سننے کے بعد بھی کچھ بات نہیں کرتے بس کہتے ہیں کہ اللہ کیا کہتا ہے مجھے سب پتا ہے بس تم یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ دھکے دے کر اور مار کر گھر سے نکالوں گا۔

اب وہ والد صاحب کا چھوڑا ہوا گھر جو 4 بھائیوں کے استعمال میں ہے، میں جب اسکو بیچ کر تقسیم وراثت کی بات کرتا ہوں تو ايك بڑے بھائی جنہوں نے سب سے زیادہ وقت اس گھر میں گزارا ہے وہ کہتے ہیں کہ تم کیا چاہتے ہوکہ ہم سب روڈ پر آجائیں؟ کیونکہ یہ گھر معمولی قیمت کا ہے اس لیے تقسیم وراثت ميں ہر ايك كے حصہ میں معمولی سی رقم ہی آئیگی۔ ذرائع آمدنی سب بھائیوں کے محدود ہیں اس لیے انہیں اور دوسرے بھائیوں کو بھی یہ گمان ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں کرایہ پر رہنا انتہائی مشکل ہے۔اب سوال یہ ہے کہ:

(1) اگر سب بہنیں اور میں اپنا حصہ معاف کردیں تو کیا اس مکان میں رہنے والے 4 بھائی اس مکان کو اپنی اشتراکی ملکیت کی حیثیت سے استعمال کر سکتے ہیں؟

(2) جو بڑا بھائی سب سے تعلقات ختم کرکے الگ رہتا ہے اور کسی  کی بھی کچھ بھی بات سننے کو تیار نہیں تو اس کے حصے کا کیا معاملہ کیا جائے گا؟

(3) ايك بہن نے بتایا کہ بڑے بھائی جنہوں نے سب سے زیادہ اس گھر کو استعمال کیا ہے انکا کہنا ہے کہ اگر یہ گھر بیچ کر سب کو حصہ دینا پڑے تو پھر میں اسکے بعد کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا تو معلوم یہ کرنا ہے کہ تقسیم وراثت کی صورت میں اگر کوئی بھائی قطع تعلق کرتا ہے تو کیا سارے بھائی اور بہنیں قطع تعلقی کے ذمہ دار ہونگے؟

4) اگر یہ گھر بیچ کر سب ہی ورثا کو حصہ دینا ضروری ہے تو 6 بھائی اور 4 بہنوں کے حصوں کی تفصیل سمجھا دیجیئے، اور جس بہن کا انتقال والدہ کے انتقال سے پہلے ہوا تھا کیا انکا بھی حصہ ہوگا اور کیا وہ حصہ انکی اکلوتی بیٹی کو دیا  جائے گا؟

تنقیح: والد کے انتقال سے قبل ہی دادا اور دادی فوت ہوچکے تھے۔ اسی طرح والدہ کی وفات کے وقت بھی نانا، نانی حیات نہ تھے اور بہنوئی کے ورثاء میں ایک بیٹی، دو حقیقی بہنیں اور دو اخیافی  بہن بھائی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

2-1، اگر سب بہنیں اور آپ مذکورہ مکان میں سے اپنا حصہ اپنے چار بھائیوں کو معاف کردیں تو اس معاف کرنے سے آپ کا اور سب بہنوں کا مذکورہ مکان میں سے حصہ ختم نہ ہوگا اور نہ ہی چار بھائی آپ کے اور بہنوں کے حصے کے مالک ہوں گے تاہم چونکہ آپ اور بہنوں کی طرف سے  ان چار بھائیوں  کو مذکورہ مکان استعمال کرنے کی اجازت ہے اس لیے یہ چار بھائی اپنے حصوں اور آپ اور بہنوں کے حصوں کے بقدر اس مکان کو استعمال کرسکیں گے اور جو بھائی ناراض ہے اس  کا حصہ الگ کردیا جائے یا اس کے ساتھ اس کے حصہ کے بقدر کرایہ داری کا معاملہ کرلیا جائے یا اسے کہہ دیا جائے کہ تم بھی اس مکان میں آکر رہنا چاہو تو رہ لو۔ باقی آپ اور بہنیں اگر اپنا حصہ چار بھائیوں کو دینا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ  اور بہنیں اپنا حصہ ان چار بھائیوں کو ہدیہ کردیں یعنی یوں کہہ دیں کہ ہم نے اس مکان میں اپنا حصہ ان چار بھائیوں کو ہدیہ کردیا ایسا کرنے سے وہ آپ کے اور بہنوں کے حصوں کے بھی مالک بن جائیں گے۔

3۔ میت کی وراثت  کو وارثوں میں تقسیم کرنا  شریعت کا حکم ہے اس حکم پر عمل کرنے سے اگر کوئی قطع تعلقی کرتا ہے  تو وہ خود گناہ گار ہے سارے بہن بھائی اس قطع تعلقی کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔

4۔اگر گھر بیچ کر سب ورثاء کو ان کا حصہ دینا چاہیں تو  وراثت کی تقسیم یوں ہوگی کہ کل قیمت کے 26112 حصے کیے جائیں گے جن میں سے ہر بیٹے کو 3138 حصے(12.01فیصد فی کس)، ہر بیٹی کو 1569 حصے (6.008 فیصد فی کس) اور مرحوم بہن کی وراثت سے ان کی بیٹی کو 840 حصے (3.21 فیصد)  اور مرحوم  بہن کے شوہر کی دو بہنوں میں سے ہر ایک کو 84 حصے (0.321 فیصد فی کس) ملیں گے۔

تکملہ حاشیہ ابن عابدین (12/110) میں ہے:

ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ‌ومن ‌حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث الجبري لا يصح تركه

شرح المجلہ (4/10) میں ہے:

كيفما يتصرف صاحب الملك المستقل بملكه يتصرف أيضا في الملك المشترك أصحابه بالاتفاق كذلك التقييد باتفاق الشركاء لإفادة أنه ليس لأحدهم التصرف في المال المشترك بلا إذن الباقين لأن شركة الملك لا تتضمن الوكالة فكان كل واحد منهم اجنبيا في حصة غيره.

الدر المختار (8/576) میں ہے:

(لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لاجنبي لعدم ‌تصور ‌القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي: وقيل يجوز لشريكه وهو المختار

مسائل بہشتی زیور (2/293) میں ہے:

ایک آدمی مرگیا اور اس نے کچھ مال چھوڑا تو اس کا سارا مال سب حقداروں کی شرکت میں  ہے، جب تک سب سے اجازت نہ لے لے تب تک کوئی اس کو اپنے کام میں نہیں لاسکتا۔ اگر کوئی لائے گا اور نفع اٹھائے گا تو گناہ گار ہوگا۔

مسائل بہشتی زیور (2/333) میں ہے:

اور اگر وہ چیز ایسی ہے کہ تقسیم کے بعد بھی کام کی ہے جیسے زمین، گھر، کپڑے کا تھان وغیرہ تو بغیر تقسیم کیے ان کا دینا صحیح نہیں ہے جو اگرچہ اس شے میں اپنے شریک کو دیا ہو۔ ایک قول کے مطابق اپنے شریک کو ایسا ہبہ کرنا جائز ہے …………….مشاع یعنی آدھی یا تہائی کے ہبہ کی باقی جتنی صورتیں ہیں وہ امام محمدؒ اور باقی تین آئمہ کے نزدیک جائز ہیں، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جائز نہیں۔ ابتلائے عام کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ دکان ومکان کی تقسیم دشوار ہے اور عام لوگوں کی سمجھ سے بعید ہے ، امام محمدؒ کے قول کو لینا مناسب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved