• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کی جائیداد بیچنے کی وجہ سے خلع

استفتاء

میرا نام*** ہے ۔اور میں*** کی رہائشی ہوں۔ اڑھائی سال قبل کچھ اختلاف کی بنا پر میں نے اپنے شوہر سے علیحدگی حاصل کر نے کے لیے کورٹ میں خلع کی درخواست دی تھی۔ اس وقت میرے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ تین تاریخ یا نوٹس کے بعد اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ بھی ہو تو عدالت یہ حق رکھتی ہے کہ وہ لڑکی کے حق میں فیصلہ دے  دے۔ میرے وکیل نے میرے شوہر کو نوٹس بھیجا یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں ہے ۔میں نے خود شوہر کو کال کر کے اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ میں نے خلع کی درخواست دے دی ہوئی ہے اس بات پر انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میرے پاس کسی قسم کا کوئی نوٹس نہیں آیا ۔میں اپنے وکیل سے رابطہ میں تھی انہوں نے مجھے بتایا کہ  پہلی دو پیشیوں پر آپ کے شوہر نہیں آئے تھے۔ جب تیسری پیشی تھی میں اپنی فیملی کے ساتھ کورٹ گئی اس دن کسی بھی جج نے مجھ سے میرے کیس کے متعلق کوئی بات نہیں کی ۔ میرے وکیل نے کافی انتظار کے بعد ہمیں یہ کہا کہ آپ لوگ گھر چلے جائیں اور سمجھیں آپ کا کام ہو گیا ہے اور جلد آپ کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا اور ڈگری گھر آجائے گی ۔میں اس بات سے مطمئن تھی کہ مجھے بار بار عدالت کے چکر نہیں کاٹنے پڑیں گے۔ کچھ عرصہ کے بعد والد صاحب کے ساتھ یونین کونسل گئی وہاں سے بھی یہی سننے کو ملا کہ آپ کے شوہر سے رابطہ نہیں ہوا ۔ میں نے اس دوران انہیں فون کیا اور اس نوٹس کے متعلق پوچھا ۔میرے شوہر نے جواب میں یہی کہا کہ جو کچھ آپ کر رہی ہو یہ شریعت کے خلاف ہے۔ مجھے کسی بھی قسم کا نوٹس نہیں ملا ۔مجھے دو ماہ بعد کورٹ کی طرف سے سرٹیفیکیٹ جاری ہو گیا ۔جسے میں نے کھولا نہیں کیونکہ مجھے یقین تھا کہ جو میں چاہتی تھی وہی فیصلہ ہے ۔ پھر 12/2022 ربیع الاول کو میرا دوسرا نکاح ہوگیا ۔ جن سے میرا نکاح ہوا ہے وہ باہر کے ملک میں رہتے ہیں ۔وہ ایک ماہ کے لیے آئے تھے پھر واپس چلے گئے۔ نکاح سے پہلے انہوں نے ہم سے کنفرم بھی کیا تھا کہ divorce (طلاق) تصدیق شدہ ہے ؟ لیکن ہمیں علم نہیں تھا کہ عدالت کی ڈگری شرعاً معتبر ہوتی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا جی خلع لیا ہوا ہے ۔شادی کے ایک دو ماہ بعد میں نے جامعہ میں داخلہ لیا تاکہ میں اپنا قرآن درست کروں ۔جامعہ جاتے جاتے مجھے مزید قرآن کا شوق اور محبت پیدا ہونے لگی ۔ میں نے تجوید کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر بھی شروع کر دی ۔ وہاں میں نے اس مسئلہ کو سنا تو مجھے خیال آیا کہ قرآن میں جو علیحدگی کے احکامات ہیں وہ اس طرح تو نہیں ہیں ۔ اس بات نے مجھے اس دن سے پریشان کیا ہوا ہے ۔ میری راہنمائی فرمائیں اور اصلاح کریں کہ کیا میں غلط راستے پر ہوں ؟ یا درست ؟ اور اب دین کیا کہتا ہے ؟ مجھے اپنے رب کے فیصلے پر سر جھکانا ہے چاہے لوگ یا فیملی رکاوٹ بنیں ۔ آپ سے درخواست ہے کہ باحوالہ تحریری جواب مرحمت فرمائیں ۔

تنقیح: خلع کی نوبت اس لیے پیش آئی تھی کہ شوہر نے میری جائیداد  بیچ دی تھی جس کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس کے علاوہ شوہر نفقہ بھی دیتا تھا اور کبھی مار پیٹ بھی نہیں کی۔

شوہر کا بیان :

میں خلع پر راضی نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کسی بھی پیپر پر دستخط کیے تھے اور نہ ہی کبھی طلاق دی تھی۔ یہ میری فرسٹ کزن ،خالہ زاد ہے ۔ میرے ساتھ یو کے میں آٹھ سال رہی ہے۔ میں پیسے اسے دیتا تھا۔ جو گھر میں نے بیچا اس میں میرے بھی یوکے والے پیسے تھے ۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا میں اس کے پیسے دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔ کوئی بھی میجر ایشو (بڑا مسئلہ ) نہیں تھا۔ والدین کے کہنے پر اس نے دوسرا نکاح کیا ۔ میرا ابھی بھی اس سے رابطہ ہے مجھے معلوم ہے کہ یہ اب پریشان ہے ۔ ہم نے مشورہ سے یہ بات طے کی ہے کہ مفتیانِ کرام سے پوچھ لیں آیا دوسرا نکاح درست ہوا یا نہیں ۔ اگر نہیں ہوا تو میں ابھی بھی اس کو ساتھ رکھنے کے لیے تیار ہوں ۔ میں بہت صاف دل آدمی ہوں۔ جب یہ لوگ خلع کا کیس کر رہے تھے تب بھی میں نے غلاف کعبہ پکڑ کر ان کو قسمیں دیں تھیں کہ ایسا مت کرو میرا دل صاف ہے لیکن ان لوگوں نے بات نہ سنی ۔ میں نے اپنے طور پر اہلحدیث،بریلوی اور شیعہ سب علماء سے پوچھا سب نے یہی کہا کہ ایسا نکاح ختم نہیں ہوتا۔

لڑکی کے والد کا مؤقف:

دارالافتاء کے نمبر سے  سائلہ کے والد سے رابطہ کیا گیا  تو  والدنے سائلہ کے بیان  سے اتفاق کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عدالت کا فیصلہ درست تھا  لہٰذا سابقہ  نکاح ختم ہوچکا تھا  اور جو دوسرا نکاح کیا  گیا وہ درست ہے لہٰذا بیوی دوسرے شوہر کے نکاح میں ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں عورت نے عدالت سے نکاح ختم کروانے کے لیے جو دعویٰ پیش کیا تھا اس میں جو وجوہات ذکر کی گئی ہیں ان میں ذہنی تشدد کا ذکر بھی ہے کیونکہ  مذکورہ صورت میں شوہر نے جب بیوی کی جائیداد بیچی تو اس کی وجہ سے اس کو اتنی ذہنی اذیت پہنچی کہ وہ نکاح فسخ کروانے پر آمادہ ہو گئی ،اور ذہنی تشدد جسمانی تشدد سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہےٍ ،اور فقہائے مالکیہ کے قول کے مطابق یہ فسخِ  نکاح  کی بنیاد بن سکتا ہے اور فقہائے حنفیہ نے ضرورت کے وقت مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے اور مذکورہ صورت میں ضرورت کا تحقق بھی ہے کیونکہ فسخِ نکاح کا عدالتی فیصلہ بھی ہو چکا ہے اور آگے نکاح بھی ہو چکا ہے اور اگر سابقہ نکاح کو فسخ نہ مانا جائے اور اگلے نکاح کو درست نہ سمجھا جائے تو اس میں بہت سارے مسائل پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے لہٰذا  مذکورہ ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے  عدالت کا فسخِ نکاح کا مذکورہ فیصلہ درست ہے اور بعد میں ہونے والا نکاح بھی درست ہے۔

مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل (5/228)میں ہے:

(ولها  التطليق بالضرر) ش:قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها…..

حیلہ ناجزہ (104 ) میں ہے:

ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الاطلاق المولى و المعسر وسواء أوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به” انتهى

فتاوی عثمانی (462/2) میں ہے:

یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب رحمہ اللہ نے اپنے ایک فتوے میں لکھا ہے:

’’عدالت نے شوہر کی طرف سے کچھ جسمانی لیکن انتہائی ذہنی تشدد دینے کی وجہ سے خاتون کا نکاح خلع کی بنیادپر فسخ کردیا ہے اور ذہنی تشدد جو کہ جسمانی تشدد سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے، یہ مالکیہ کے قول کے مطابق فسخ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے اور فقہائے احناف نے ضرورت کے موقع پر مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے‘‘ [فتویٰ نمبر: 7/209]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved