- فتوی نمبر: 13-290
- تاریخ: 04 مئی 2019
استفتاء
خطیب صاحب کو مدارس کے سفراء سے جودیہات سے ہدیہ لاتے ہیں بلتستان سے خوبانی ،زیرہ ،سوات سے شہد ،دیر سے اخروٹ اور پنجاب سے دیسی گھی وغیرہ باوجود شدت سے منع کرنے کے قبول کرنا جائز ہے ؟حالانکہ سب کیساتھ اعلان میں ایک جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں خطیب کی جانب سے شدت کے ساتھ منع کرنے باوجود مدارس کے سفراء کی طرف سے ہدیے دینا اور خطیب کا ان کو قبول کرنا جائز ہے۔
توجیہ: امداد الفتاوی(370/3) میں ہے:
’’جو چیز کسی کو دی جاتی ہے اس کی دو حالتیں ہیں یاتو بعوض دیا جاتا ہے یا بلاعوض ،اور جو بعوض دیا جاتا ہے دو حال سے خالی نہیں یا تو ایسی شے کا عوض ہے جو شرعا متقوم وقابل عوض ہے اور یا ایسی شے کا عوض ہے جو شرعا متقوما وقابل عوض نہیں ،خواہ حقیقۃ جیسا عقود باطلہ میں ہوتا ہے یا حکما جیسا عقود فاسدہ میں ہوتا ہے ۔اور جو بلاعوض دیا جاتا ہے وہ بھی دوحال سے خالی نہیں یا تو محض طیب خاطر اور آزادی سے دیا جاتا ہے یا تنگی خاطر وکراہت قلب سے دیا جاتا ہے خواہ وہ تنگی خاطراورکراہت قلب زیادہ ہو یا کم ہو۔یہ کل چار قسمیں ہوئیں ۔(۱)قسم اول جو متقوم شے کے عوض میں حاصل ہو ۔(۲)قسم دوم جو غیر متقوم شے کے عوض میں حاصل ہو (۳)قسم سوم جو بلاعوض بطیب خاطر حاصل ہو (۴)قسم چہارم جو بلاعوض بکراہت حاصل ہو ۔قسم اول بوجہ اجرت یا ثمن ہونے اور قسم سوم بوجہ ہدیہ وعطیہ ہونے کے حلال ہے۔ اور قسم دوم بوجہ رشوت یا ربوا حقیقی یا حکمی ہونے اور قسم چہارم بوجہ ظلم یا جبر فی التبرع ہونے کے حرام ہے ‘‘مدارس کے سفراء کی جانب سے خطیب کو مختلف ہدایا دینے کی صورت پہلی صورت (یعنی متقوم )میں تو یقینا داخل نہیں اور بظاہر چوتھی صورت(یعنی بوجہ ظلم یا جبر فی التبرع) میں بھی داخل نہیں ۔ اب یہ صورت یاتو قسم دوم (یعنی رشوت جو غیر متقوم شے کے عوض میں حاصل ہو)میں داخل ہے اور یا قسم چہارم (ہدیہ وعطیہ جو بلاعوض بطیب خاطر حاصل ہو)میں داخل ہے ۔اگر اس صورت کو قسم دوم میں داخل مانا جائے تو اس میں دو احتمال ہیں (۱)یہ دینا ابطال حق یا احقاق باطل(حق کو باطل کرنے یا باطل کو حق کرنے) کے لیے ہو اس صورت میں یہ دینا دونوں کے حق میں رشوت ہو گا ۔مذکورہ صورت میں یہ احتمال نہیں ۔(۲)یہ دینا احقا ق حق کے لیے ہو ۔اس صورت میں یہ دینا لینے والے کے حق میں تو رشوت ہو گا لیکن دینے والے کے حق میں رشوت نہ ہو گا ۔مذکورہ صورت میں یہ احتمال بھی نہیں کیونکہ یہ احتمال وہاں ممکن ہے جہاں کوئی کام شرعا یا قانونا یا عرفا کسی کے ذمے ہو اور وہ شخص وہ کام کچھ لیے بغیر کرنے پر آمادہ نہ ہو یا کچھ ٹال مٹول کرتا ہو یا کچھ دینے اور نہ دینے ولوں کے درمیان کوئی امتیازی سلوک کرتاہو۔ مذکورہ صورت میں اولاتو شرعا یا قانونا یا عرفا خطیب کچھ لیے بغیر اعلان کرنے یا اعلان کی اجازت دینے میں نہ تو کوئی ٹال مٹول کرتا ہے اور نہ ہی دینے اور اور نہ دینے والوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کرتا ہے بلکہ دینے والوں کو شدت کے ساتھ منع بھی کرتا ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں یہ دوسرا احتمال بھی نہیں ۔جب مذکورہ صورت میں تینوں صورتوں میں داخل نہیں تو لامحالہ چوتھی صورت میں داخل ہو گی اور چوتھی صورت میں یہ دینا بھی حلال ہے اور لینا بھی حلال ہے
(۱)چنانچہ فتاوی شامی میں ہے:
. و تعليل النبي صلي الله عليه و سلم دليل علي تحريم الهدية اللتي سببها الولاية. فتح
قال في البحر: و ذکر الهبة ليس احترازياً إذ يحرم عليه الاستقراض و الاستعارة ممن يحرم عليه قبول هديته کما في الخانية، قلت: و مقتضاه أنه يحرم عليه سائر التبرعات. (57/8)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ جس ہدیے کا سبب ولایت ہو اس کا لینا حرام ہے۔ اور قرضہ لینا، عاریت پر کوئی چیز لینا غرض تمام تبرعات کا یہی حکم ہے۔
2۔ در مختار میں ہے:
و هي ما يعطي بلا شرط إعانة بخلاف الرشوة. (57/8)
ہدیہ وہ ہوتا ہے جس میں اعانت کی شرط نہ ہو (نہ صراحتاً اور نہ عرفاً) بخلاف رشوت کے کہ اس میں صراحتاً یا عرفاً اعانت کی شرط ہوتی ہے۔
3۔ در مختار میں ہے:
يجوز للإمام و المفتي و الواعظ قبول الهدية لأنه إنما يهدي إلي العالم لعلمه بخلاف القاضي. و في الرد: و أما الإمام يعني الوالي فلا تحل له الهدية (در مع الرد: 57-58/8)
امام (مسجد) اور مفتی اور واعظ کے لیے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے کیونکہ عالم کو اس کے علم کی وجہ سے ہدیہ دیا جاتا ہے بخلاف قاضی کے (کہ اسے اس لیے ہدیہ دیا جاتا ہے تاکہ قاضی اس کے حق میں فیصلہ کرے)
4۔ شامی میں ہے:
و کل من عمل للمسلمين عملاً حکمه في الهدية حکم القاضي …. و الظاهر أن المراد بالعمل الولايةالناشئة عن الإمام أو نائبه کالساعي و العاشر، قلت: و مثلهم مشائخ القري و الحرف وغيرهم ممن لهم قهر و تسلط علي من دونهم فإنه يهدي إليهم خوفاً من شرهم أو ليروج عندهم.
ہر وہ شخص جو مسلمانوں کے کسی کام میں لگے اس کا حکم ہدیے میں قاضی کے حکم کی طرح ہے اور مسلمانوں کے کام میں لگنے سے مراد یہ ہے کہ اسے اس کام کی ولایت حکومت سے یا حکومت کے نائب سے حاصل ہوئی ہو اور اسے اپنے ماتحتوں پر قہر اور تسلط حاصل ہو کیونکہ ان کو ہدیہ یا ان کے شر سے بچنے کے لیے دیا جائے گا اور یا اس لیے تاکہ دینے والے کی ان کے ہاں کچھ حیثیت بن جائے جو وقت پر کام آئے۔
5۔ شامی میں ہے:
وظاهر قوله: ناشئة عن الامام الخ دخول المفتي إذا کان منصوبا من طرف الامام أو نائبه، لکنه مخالف لاطلاقهم جواز قبول الهدية له، وإلا لزم کون إمام الجامع والمدرس المنصوبين من طرف الامام کذلک، إلا أن يفرق بأن المفتي يطلب منه المهدي المساعدة علي دعواه ونصره علي خصمه فيکون بمنزلة القاضي، لکن يلزم من هذا الفرق أن المفتي لو لم يکن منصوبا من الامام يکون کذلک فيخالف ما صرحوا به من جوازها للمفتي، فإن الفرق بينه وبين القاضي واضح، فإن القاضي ملزم وخليفة عن رسول الله صلي الله عليه و سلم في تنفيذ الاحکام، فأخذه الهدية يکون رشوة علي الحکم الذي يؤمله المهدي ويلزم منه بطلان حکمه، والمفتي ليس کذلک(فانه مخبر)، وقد يقال: إن مرادهم بجوازها للمفتي إذا کانت لعلمه لا لاعانته للمهدي بدليل التعليل الذي نقله الشارح، فإذا کانت لاعانته صدق عليها حد الرشوة، لکن المذکور في حدها شرط الاعانة. وقدمنا عن الفتح عن الاقضية أنه لو أهداه ليعينه عند السلطان بلا شرط لکن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه فمشايخنا علي أنه لا بأس به الخ. وهذا يشمل ما إذا کان من العمال أو غيرهم وعن هذا قال في جامع الفصولين: القاضي لا يقبل الهدية من رجل لو لم يکن قاضيا لا يهدي إليه ويکون ذلک بمنزلة الشرط، ثم قال أقول: يخالفه ما ذکر في الاقضية الخ.
قلت: والظاهر عدم المخالفة، لان القاضي منصوص علي أنه لا يقبل الهدية علي التفصيل الآتي، فما في الاقضية مفروض في غيره، فيحتمل أن يکون المفتي مثله في ذلک ويحتمل أن يکون ….. ورأيت في حاشية شرح المنهج ….. ما نصه: …. ومن العمال مشايخ الاسواق والبلدان ومباشرو الاوقاف، وکل من يتعاطي أمرا يتعلق بالمسلمين ….. ولا يلحق بالقاضي فيما ذکر المفتي والواعظ ومعلم القرآن والعلم، لانهم ليس لهم أهلية الالزام، والاولي في حقهم إن کانت الهدية لاجل ما يحصل منهم من الافتاء والوعظ والتعليم عدم القبول ليکون علمهم خالصا لله تعالي، وإن أهدي إليهم تحببا وتوددا لعلمهم وصلاحهم فالاولي القبول. وأما إذا أخذ المفتي الهدية ليرخص في الفتوي: فإن کان بوجه باطل فهو رجل فاجر يبدل أحکام الله تعالي ويشتري بها ثمنا قليلا، وإن کان بوجه صحيح فهو مکروه کراهة شديدة انتهي هذا کلامه وقواعدنا لا تأباه …… وأما إذا أخذ لا ليرخص له بل لبيان الحکم الشرعي، فهذا ما ذکره أولا (أي الأولي عدم القبول)، وهذا إذا لم يکن بطريق الاجرة بل مجرد هدية، لان أخذ الاجرة علي بيان الحکم الشرعي لا يحل عندنا، وإنما يحل علي الکتابة لانها غير واجبة عليه، والله سبحانه أعلم. (58/8)
ولایت ناشئہ عن الامام کے ظاہر (کاتقاضا)یہ ہے کہ اگر مفتی حکومت یا اس کے نائب کی طرف سے مقرر ہو تو اس کا حکم بھی ہدیے میں قاضی والا ہے لیکن یہ بات فقہاء کے اس اطلاق کے خلاف ہے کہ مفتی کے لیے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ورنہ تو لازم آئے گا کہ جو امام مسجد اور مدرس حکومت یا اس کے نائب کی جانب سے مقرر ہو وہ بھی ہدیے میں قاضی کی طرح ہو (حالانکہ یہ بات درست نہیں لہذا مفتی جو منصوب من الامام او من نائبہ ہو وہ بھی ہدیے میں قاضی کی طرح نہیں )
البتہ مفتی میں اور امام مسجد اور مدرس میں منصوب من الامام ہونے کے باوجود یہ فرق ہو سکتا ہے کہ مفتی سے ہدیہ دینے والا اپنے دعوے پر مدد (مساعدہ) اور اپنے مد مقابل پر نصرت طلب کرتا ہے لہذا مفتی تو بمنزلہ قاضی کے ہو گا (لیکن امام مسجد اور مدرس بمنزلہ قاضی کے نہ ہو گا)۔
لیکن اس فرق پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ مذکورہ اصول کے پیش نظر تو مفتی کے لیے ہدیے میں بمنزلہ قاضی کے ہونے کے لیے منصوب من الامام ہونا بھی ضروری نہیں (جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مفتی کے لیے ہر حال میں ہدیہ لینا ناجائز ہو گا) حالانکہ یہ بات فقہاء کی اس تصریح کے مخالف ہے کہ مفتی کے لیے ہدیہ جائز ہے
اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ فقہاء کی مراد اس سے کہ مفتی کے لیے ہدیہ جائز ہے یہ ہو سکتی ہے کہ جب یہ ہدیہ مفتی کے علم کی وجہ سے ہو ہدیہ دینے والے کی اعانت کے لیے نہ ہو جیسا کہ اس تعلیل سے معلوم ہوتا ہے جو شارح نے نقل کی ہے (یعنی صاحب در مختار نے اپنے اس قول میں ذکر کی ہے يجوز للإمام و المفتي و الواعظ قبول الهدية لأنه إنما يهدي إلي العالم لعلمه بخلاف القاضي) ۔
لہذا جب یہ ہدیہ، ہدیہ دینے والے کی اعانت کی غرض سے ہو گا تو اس پر رشوت کی تعریف صادق آئے گی۔
لیکن اس پر یہ اشکال ہے کہ رشوت کی تعریف میں اعانت کا شرط ہونا مذکور ہے (جو کہ مفتی کو ہدیہ دینے کی صورت میں مفقود ہے) اسی وجہ سے فتح میں اقضیہ سے منقول ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کو بغیر شرط کے اس لیے ہدیہ دیا کہ یہ ہدیہ لینے والا بادشاہ کے پاس اس کی اعانت کرے گا تو اس صورت میں اگرچہ یہ یقیناً جانتا ہے کہ ہدیہ اعانت کی وجہ سے دے رہا ہے لیکن پھر بھی ہمارے مشایخ نے یہ کہا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں (کیونکہ اعانت کی شرط نہیں ) اور مشایخ کی یہ بات عمال اور غیر عمال دونوں کو شامل ہے۔
اسی وجہ سے جامع الفصولین میں اس مسئلے کو نقل کرنے کے بعد کہ قاضی اس آدمی سے ہدیہ قبول نہ کرے کہ جو قاضی کے قاضی نہ ہونے کی صورت میں ہدیہ نہ دیتا کیونکہ ایسی صورت میں ہدیہ دینا بمنزلہ شرط کے ہو گا یہ کہا ہے کہ اقضیہ کی مذکورہ عبارت اس مسئلے کے مخالف ہے (کیونکہ اس مسئلے میں ہدیہ دینے کی وجہ کو بمنزلہ شرط کے کہا گیا ہے جبکہ اقضیہ کی عبارت میں ہدیہ دینے کی وجہ کو بمنزلہ شرط کے نہیں کہا گیا)۔
علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جامع الفصولین اور اقضیہ کی عبارت میں مخالفت نہیں کیونکہ قاضی کے بارے میں نص ہے کہ وہ آئندہ آنے والی تفصیل کے مطابق ہدیہ قبول نہیں کرے گا لہذا اقضیہ کی عبارت غیر قاضی کے بارے میں ہے۔
پس اب یہ بھی احتمال ہے کہ مفتی مثل قاضی کے ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ مثل قاضی کے نہ ہو اور اس میں کچھ شک نہیں کہ عدم قبول ہی مقبول ہے۔
پھر میں نے (علامہ شامی رحمہ اللہ نے) علامہ محمد داؤدی شافعی کے شرح المنہج کے حاشیہ میں یہ عبارت دیکھی:
ومن العمال مشايخ الاسواق والبلدان ومباشر و الاوقاف، وکل من يتعاطي أمرا يتعلق بالمسلمين۔
یعنی عمال (اور قاضی) کے حکم میں بازاروں اور شہروں کے مشایخ اور محکمہ اوقاف کے لوگ اور ہر وہ شخص ہے جو مسلمان کسی کام کو سرانجام دینے کے لیے مقرر ہو۔
و لا يلحق بالقاضي فيما ذکر المفتي و الواعظ و معلم القرآن و العلم لأنهم ليس لهم أهلية الإلزام.
یعنی مذکورہ حکم میں مفتی، واعظ، قرآن اور (دینی) علم کی تعلیم دینے والے لوگ قاضی کے ساتھ ملحق نہ ہوں گے کیونکہ ان کو الزام (یعنی اپنی بات دوسرے پر لازم کرنے) کی اہلیت نہیں ۔
و الأولي في حقهم إن کانت الهدية لأجل ما يحصل منهم من الافتاء و الوعظ التعليم عدم القبول ليکون علمهم خالصاً لله تعالي.
یعنی مفتی، واعظ وغیرہ کے حق میں اولیٰ یہ ہے کہ اگر ہدیہ ان سے افتاء اور وعظ اور تعلیم کے حصول کی وجہ سے ہے تو ہدیہ قبول نہ کریں تاکہ ان کا علم خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو۔
وان أهدي إليهم تحبباً و تودداً لعلمهم و صلاحهم فالأولي القبول.
یعنی اگر مفتی وغیرہ کو ہدیہ محض ان کے علم اور نیکی سے محبت کی وجہ سے ہو تو اولیٰ قبول کرنا ہے۔
و أما إذا أخذ المفتي الهدية ليرخص في الفتوي فإن کان بوجه باطل فهو رجل فاجر … و إن کان بوجه صحيح فهو مکروه کراهة شديدة انتهي هذا کلامه و قواعدنا لا تأباه.
یعنی جب مفتی ہدیہ اس غرض سے لے تاکہ فتوے میں (مستفتی) کو رخصت دے تو اگر یہ رخصت دینا باطل طریقے سے ہو تو ایسا مفتی فاسق ہے اور اگر کسی صحیح طریقے سے ہو تو پھر بھی (یہ ہدیہ لینا) شدید درجے کا مکروہ عمل ہے، یہاں حاشیے کی بات ختم ہو گئی اور ہمارے قواعد اس مذکورہ بات کے مخالف نہیں ۔
وأما إذا أخذ لا ليرخص له بل لبيان الحکم الشرعي، فهذا ما ذکره أولا (أي الأولي عدم القبول)، وهذا إذا لم يکن بطريق الاجرة بل مجرد هدية، لان أخذ الاجرة علي بيان الحکم الشرعي لا يحل عندنا، وإنما يحل علي الکتابة لانها غير واجبة عليه.
اور جب مفتی ہدیہ فتوے میں رخصت دینے لیے نہ لے بلکہ حکم شرعی کو بیان کرنے کے لیے لے تو یہ وہ صورت ہے جو اولاً مذکور ہوئی (یعنی جس میں نہ لینا اولیٰ ہے) اور یہ بھی تب ہے جب یہ لینا بطور اجرت کے نہ ہو کیونکہ ہمارے نزدیک شرعی حکم کو (زبانی) بیان کرنے پر اجرت لینا حلال نہیں البتہ لکھ کر فتویٰ دینے پر اجرت لینا حلال ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ
1۔ حقیقتاً رشوت وہ ہوتی ہے جس میں اعانت کی شرط ہو (خواۃ صراحتاً خواہ عرفاً) رشوت خواہ قاضی کو دی جائے یا غیر قاضی کو بہر صورت ناجائز ہے یہ الگ بات ہے کہ بعض صورتوں میں دونوں کے لیے ناجائز ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں صرف لینے والے لیے ناجائز ہے دینے والے کے لیے گنجائش ہوتی ہے۔
2۔ جس میں اعانت کی شرط نہ ہو (نہ صراحتاً نہ عرفاً) وہ حقیقت میں ہدیہ ہے ہدیہ قاضی اور اہل ولایت کے لیے (کچھ استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر)نصوص کی وجہ سے حکماً رشوت ہے۔
3۔ اہل ولایت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو سرکاری سطح پر الزام (اپنی بات دوسرے پر لازم کرنے) کی اہلیت (اتھارٹی) حاصل ہو۔
4۔ جن لوگوں کو ولایت الزام حاصل نہ ہو اگرچہ ان سے مسلمانوں کے امور وابستہ ہوں جیسے مفتی ان کو ہدیہ دینا مطلقاً رشوت کے حکم میں نہیں بلکہ اس میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:
الف: ہدیہ دینے کی غرض ان سے وابستہ فائدے کا حصول ہو مثلاً مفتی سے فتوے کا حصول ہو (یعنی اگرچہ مفتی اس ہدیہ کے بغیر بھی فتویٰ دے دے گا تاہم ہدیہ دینے سے حصول فتویٰ میں سہولت ہو گی)
اس صورت میں ہدیہ قبول نہ کرنا اولیٰ ہے تاہم قبول کی گنجائش ہے۔
ب: ہدیہ دینے کی غرض فائدے کا حصول نہیں بلکہ محض مفتی کے علم اور نیکی سے محبت کی بناء پر ہدیہ دینا مقصود ہے۔ اس صورت میں ہدیہ قبول کرنا اولیٰ ہے۔
ج: ہدیہ دینے کی غرض فتوے میں رخصت کا حصول ہے (یعنی ہدیہ دیئے بغیر مفتی رخصت کا فتویٰ نہ دے گا) اس صورت میں ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ۔
5۔ نمبر 4 کے ذیل میں مذکورہ تفصیل اس وقت ہے جب یہ ہدیہ بطور اجرت کے نہ ہو اگر بطور اجرت کے ہو تو زبانی فتویٰ دینے کی صورت میں اجرت لینا جائز نہیں البتہ تحریری فتویٰ دینے کی صورت میں اجرت لینا جائز ہے (بشرطیکہ جز: ج میں مذکورہ صورت نہ ہو)۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved