• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مار پیٹ اور نفقہ نہ دینے کی وجہ سے تنسیخ نکاح

  • فتوی نمبر: 1-243
  • تاریخ: 28 جولائی 2007

استفتاء

**** نہ اپنی منکوحہ کو گھر میں بسانا چاہتا ہے اور نہ ہی طلاق دیتا ہے۔ واضح رہے کہ **** کو یہ غصہ ہے کہ میری ہمشیرہ کو بکر نے کیوں

طلاق دی ہے؟ بکر نے اپنی مجبوری کے تحت اس نافرمان اور سرکش بیوی کو آخر سولہ سال کے بعد طلاق دے دی ہے۔

جس کی صورت حال یہ ہے کہ بدقسمتی سے **** کی ہمشیرہ کا نکاح 1990ء میں وٹہ سٹہ کی صورت میں بکر سے ہوا تھا اور اس نے سولہ سالہ زندگی اپنے خاوند کے ساتھ بدسلوکی سے گذارے ہیں۔ کبھی بھی چھ ماہ سے زیادہ اپنے خاوند کے ہاں نہیں رہی۔ شروع ہی سے سال ڈیڑھ سال تک ناراضگی کی صورت میں اپنے والدین کے ہاں رہتی تھی اور خاوند کو ناپسندیدہ اور بے وقوف احمق سمجھتی رہی۔ حالانکہ وہ عالم دین اور حافظ قران اور وفاق المدارس سے فارغ التحصیل ہے۔ اس کے بالمقابل وٹہ سٹہ کی صورت میں چونکہ **** کی شادی کئی سالوں کے بعد ہوئی تھی وہ مشکلات کے باوجود **** کے ہاں **** کی بیوی فرمانبرداری کی زندگی گذارتی رہی۔ جب سے **** کی ہمشیرہ کو طلاق ملی ہے۔ انہی دنوں میں **** نے اپنی بیوی کا سامان پھینک کر بیوی کو بھی گھر سے باہر نکال دیا اور کہا کہ میں نہ بیوی کو طلاق دوں گا اور نہ گھر میں رکھوں گا۔ قبل ازیں **** کو یہ پیشکش بھی بذریعہ اس کے حقیقی چچا کے کی گئی تھی کہ اگر تیری بہن اپنے خاوند کے ہاں نہیں رہتی تو نہ رہے تم اپنی بیوی کو اپنے ہاں رکھو اور بساؤ۔ مگر **** نے اس وقت انکار کر دیا تھا اس کے انکار کرنے کا گواہ خود اس کا حقیقی چچا موجود ہے۔ اس کا جواباً کہنا تھا کہ میں اپنی بہن کو چھوڑ نہیں سکتا البتہ اپنی بیوی کو چھوڑ سکتا ہوں۔

خلاصہ مرام اینکہ **** کی ہمشیرہ کو طلاق مل جانے کے بعد اب **** بضد ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق بھی نہیں دوں گا اور نہ گھر میں رکھوں گا۔ اس سولہ سالہ بدسلوکی کے زمانہ میں کئی بار برادری اور پنچائتوں کے فیصلے بھی ہوتے رہے وہ ہر بار خلاف ورزی کرتے رہے۔ آخری بار جب وہ اپنی مرضی کی پنچائیتی لے آئے، پنچائیت نے راضی نامہ کرا دیا۔ حسب عادت سابقہ کے چھ ماہ گذرنے کے بعد پنجائیتی فیصلہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے **** نے اپنے بہنوئی بکر کے گھر جا کر بکر کو گالیاں دیں اور بکواس کے ساتھ دھمکیاں بھی دیں اور داڑھی کی توہین کر کے اپنی بہن کو بہنوئی کے گھر سے لاکر واپس اپنے گھر آیا۔ اس لیے بکر نے طلاق دے دی۔ اب **** نہ طلاق دیتا ہے اور نہ بیوی کو رکھنا چاہتا ہے۔ مجبوراً **** کی بیوی نے موجودہ عائلی قوانین کے تحت تفریق بین الزوجین کا دعویٰ دائر کیا اور عدالت نے ضروری کاروائی کر کے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا ہے۔

صورت مسئولہ میں جواب طلب امر یہ ہے کہ یہ طلاق بالجبر ایک مسلمان حاکم وقت کی طرف سے کیا شرعاً واقع ہوگی یا نہیں؟ اور کیا تفریق بین الزوجین واقع ہوگی یا نہیں؟ اور کیا عدت گذرنے کے بعد منکوحہ مذکورہ عقد ثانی کرسکتی ہے یا نہیں؟

دار الافتاء دار العلوم کراچی کا جواب:

سوال کے ساتھ منسلکہ آرڈر شیٹ اور مدعیہ کے بیان کا مطالعہ کیا گیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ مدعیہ ( میمونہ بی بی) نے مدعی علیہ ( ****) پر کچھ الزامات لگائے ہیں، جن میں نان و نفقہ نہ دینا وغیرہ شامل ہیں، اس کے بعد عدالت نے مدعی علیہ کو بلایا، اور اس کو نوٹس جاری کیا، لیکن وہ یا اس کا وکیل حاضر عدالت نہیں ہوا، اور اپنا دفاع نہیں کیا، جس سے جس طرح شوہر کا ” تعنت” ثابت ہو رہا ہے، اسی طرح یہ شوہر کی طرف سے ” نکول” یعنی قسم سے انکار بھی ہے، لہذا اگر شوہر کو اس کیس کا پتہ تھا اور عدالت کے سمنز کے بارے میں اس کو علم تھا اس کے باوجود وہ حاضر عدالت نہ ہوا تو اب یہ سمجھا جائے گا کہ مذکورہ صورت میں شوہر متعنت ہے، اس کے بعد عدالت نے بیوی کی طرف سے پیش کردہ حلفیہ بیان کی بنیاد بنا کر نکاح کو فسخ کیا، جو شرعا درست ہے۔ فیصلہ میں گو عدالت نے تعنت کو صراحتاً فسخ نکاح کی بنیاد نہیں بنایا لیکن چونکہ اس میں فسخ نکاح کی بنیاد فی الجملہ موجود ہے یعنی شوہر کا تعنت ہونا، اس لیے تعنت کی بنیاد پر یہ نکاح فسخ ہوچکا ہے، لہذا اس فیصلہ کے اجراء کی تاریخ سے مذکورہ عورت عدت طلاق گذار کر دوسری جگہ اگر چاہے تو شرعاً نکاح کرسکتی ہے۔ ( ماخذہ: تبویب دار الافتاء 297/ 45) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

جواب و تنسیخ نکاح از دار الافتاء و التحقیق لاہور:

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عدالتی خلع کے بعد مذکورہ صورت میں تقریباً تین ماہر علماء کا ایک بورڈ بنا دیا جائے عورت ( یعنی میمونہ بنت عبد الغفور) اپنے مسئلے کو اس بورڈ کے سامنے ثابت کرے اگر عورت سچی پائی جائے تو بورڈ اس کا نکاح فسخ کر دے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

تنسیخ نکاح؛ آج مورخہ 28 جولائی 2007ء بروز ہفتہ کو عورت یعنی ****نے علماء کے بورڈ کے سامنے حلفیہ بیان دیا کہ اس کا شوہر **** اس کی بلاوجہ شرعی مارپٹائی کرتا ہے اور نان و نفقہ بھی نہیں دیتا اور دو گواہوں نے بھی عورت کے اس بیان کی حلفاً تصدیق کی۔ لہذا علماء کا بورڈ شوہر کے بیوی کو بلا وجہ شرعی مارنے پیٹنے کی وجہ سے اور نان نفقہ نہ دینے کی وجہ سے ان کے نکاح کو فسخ کرتا ہے۔ عورت اس کے بعد عدت گذار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved