- فتوی نمبر: 15-91
- تاریخ: 08 اگست 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نعلین شریف پہنے ہوئے عرش پر آنے کا حکم ہوا تو عرض کیا یا اللہ موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ نعلین اتار کر طور سینا پر آؤ اس ادب کی وجہ سے نعلین اترنا چاہتا ہوں تو رب تعالی نے خوبصورت انداز میں فرمایا کہ موسی علیہ السلام کو نعلین اتارنے کا حکم اس لئے دیا تاکہ طور سینا کی خاک ان کے پاؤں کو لگے اور موسی علیہ الصلاۃ والسلام کی شان بلند ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعلین شریف نہ اتارنے کا حکم اس لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی خاک عرش کو لگے اور عرش کا درجہ بلند ہو.(حوالہ قصص الانبیاء 287 ۔تفسیر روح المعانی 16)
کیا یہ روایت درست ہے اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج عرش پر تشریف لے گئے تھے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اللہ تعالی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نعلین سمیت عرش پر بلانا بعض سیروتفاسیر میں مذکور ہے لیکن ان کا کوئی معتبر حوالہ موجود نہیں ہے، بلکہ محدثین نے اسے موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ نیز کسی حدیث سے عر ش پر جانا بھی ثابت نہیں ۔
چنانچہ غایۃ المقال فیما یتعلق بالنعال ص:73از علامہ عبدالحی لکھنوی ؒ میں ہے:
وقد انکر غیرواحد من حفاظ الاسام وحملة السنة ونقاد الحدیث وصیارفته وشنعوا علی من قاله وصرحوا بانه موضوع مختلق فعهدة وضعه علی مانقله غیر مبین لوضعه واتباع المحدثین فی هذاالمقام متعین قان صاحب البیت ادری بمافیه وقد سئل الامام الرضی الدین القزوینی رحمه الله عن وطی النبی ﷺ العرش بتعله وقول الرب جل جلاله لقد شرف العرش بنعله فلیس بصحیح ولیس بثابت بل وصوله الی ذروة العرش لم یثبت فی خبر صحیح ولا حسن ولا ثابت اصلا وانما صح فی الاخبار انتهاء الی سدرة المنتهی فحسب واما الی ما وراءها فلم یصح وانما ورد ذلک فی اخبار ضعیفة اومنکرة لایعرج علیها انتهی۔
کفایت المفتی جلد نمبر 1 صفحہ 145
سوال :ایک شخص کہتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب شب معراج میں اللہ سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو اللہ نے فرمایا اے میرے حبیب جوتوں سمیت آئیے تاکہ میرا عرش مزین ہو جائے ۔چنانچہ آپ مع جوتوں کے عرش پر گئے۔ کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟
جواب: نعلین شریفین کے متعلق یہ بات کہ حضرت حق جل جلالہٗ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نعلین سمیت عرش پر بلایا بعض سیرو تفاسیر میں مذکور ہے، واعظ اسے دیکھ کر بیان کر دیتے ہیں مگر سند اور صحت کے لحاظ سے ہمیں اس کی کوئی سند نہیں ملی
© Copyright 2024, All Rights Reserved