• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

امربالمعروف

استفتاء

گذارش ہے کہ بندہ نےایک کتاب میں سورہ آل عمران (رکوع 12) کی آیت"كنتم خير أمة۔۔۔۔” تک کی آیت کا ترجمہ لکھا ہواتھا اور تشریح میں تھا۔

حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ "تأمرون بالمعروف”اچھی بات کا حکم کرتے رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حکم کرتےرہوکہ وہ” لا إله إلّا الله” کی گواہی دیں اور اللہ کے احکام کا اقرار کریں اور"لاإله إلّا الله” ساری اچھی چیزوںمیں سے بہترین چیز ہے اور سب سے بڑھی ہوئی ہے۔

اور ایک دوسری جگہ اسی کتاب میں لکھاہے کہ مفسرین نے لکھاہے کہ  اس آیت شریفہ  میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایمان سے پہلے  ذکر فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان میں تو امم سابقہ بھی شریک تھیں۔ یہ خاص خصوصیت جس کی وجہ سے تمام انبیاء علیہم السلام  کے متبعین  سے امت محمدیہ کو تفوق ہے ۔ وہ یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جو اس امت کا تمغہ امتیا ز ہے۔۔۔اس امت کے لیے تمغہ امتیاز  ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  اس کا مخصوص اہتمام کیا جائے ورنہ کہیں چلتے پھرتے  تبلیغ کردینا اس میں کافی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ یہ امرپہلی امتوں میں بھی پایا جاتاتھا  جس کو "فلمّانسواماذكروبه”وغیرہ آیات میں ذکر فرمایا ہے ۔ امتیاز مخصوص اہتمام  کا ہے کہ اس کو مستقل کام سمجھ کر دین کے اور کاموں کی طرح اس میں مشغول ہوں ۔انتہیٰ لفظہ

اس تشریح سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ امت محمدیہ کا ہرفرد "بلغوعني ولوآيةً”پر عمل کرکے بہترین امت کے فضائل حاصل کرنے کی سعی پیہم کرے ان طریقوں سے جو اقرب الی السنہ ہو اور  الی الدین ہوں۔

کیا مندرجہ بالاآیت کی درج بالا تشریح اور میں نے جو نتیجہ اخذکیا  صحیح ہے؟ آج کل فتنے کا زمانہ ہے علمائے دین اور مفتیان شرع   سے رہنمائی ضروری ہے۔ نام نہاد اسلامی بینکنگ کے خلاف آپ کی جرأت آموز فتاویٰ کے سبب میں آپ کوصراط مستقیم پر سمجھتاہوں اور بھر پور اعتماد کرتاہوں۔

نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے مراد درمیان کے غیر متعلقہ جملے چھوڑدیئے گئے ہیں۔

الجواب

1۔حضرت ابن عباس ؓ کی پوری عبارت یہ ہے:

"عن ابن عباس أنه قال في تفسير هذه الآية :كنتم خيرأمة اخرجت للناس تأمرونهم أن يشهدو أن لاإله إلّا الله ويقروبما أنزل الله وتقاتلونهم عليه و لاإله إلّا الله اعظم المعروف والتكذيب هوأنكرالمنكر”(تفسير كبير8/157)

ترجمہ: حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر کرتےہوئے فرمایا: کہ تم لوگوں کو اس بات کاحکم کرتے ہوکہ وہ لاإله إلّا اللهکی گواہی دین اور اللہ کے احکام کااقرار کریں اور تم ان سےاسے اعراض کرنے پر قتال کرتے ہو۔ لاإله إلّا اللهسب معروفات سے بڑھ کر ہے۔ اور اس کی تکذیب سب سے بڑامنکرہے”

2۔یہ بات درست نہیں کہ پچھلی امتوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں تھا۔ چنانچہ اصحاب سبت کا قصہ قرآن کریم میں مذکور ہے: قصہ یہ ہے: دریائے شور کے قریب ایک بستی تھی جس کے رہنے والوں کے لیے ہفتہ کے دن شکار کرنا ممنوع تھا۔ لیکن بستی کے کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف وزری کی  ۔ جب کہ باقی لوگ اس حکم پر قائم رہے اور نافرمانوں کو سمجھاتے رہے۔ لیکن وہ نافرمان لوگ اپنے عمل پر قائم رہے حتی کہ فرمانبرداروں کی ایک جماعت ان لوگوں کی  ہدایت سے مایوس ہوگئی اور نصیحت ترک کردی جبکہ ایک جماعت مسلسل نصیحت کرتی رہی۔

نتیجہ یہ نکلاکہ  اللہ رب العزت نے فرمانبرداروں کے دونوں گروہوں کو نجات عطافرمائی۔ اور نافرمانوں کو بڑے عذاب میں مبتلافرمایا۔(خلاصہ از: معارف القران  /اعراف)

قرآن کریم میں یہ بات یوں مذکور ہے:

"وإذقالت أمة منهم لم تعظون قوماًالله مهلكهم أومعذبهم عذاباً شديداً قالوا معذرة إلی ربكم ولعلهم يتقون”

ترجمہ: اور جب بولا ان میں سے ایک فرقہ کیوں نصیحت کرتےہو ان لوگوں کو جن کو اللہ چاہتاہے کہ ہلاک کرے یا ان کو سخت عذاب دے۔ وہ بولے  تاکہ ہمارامنع کرنا عذر ہوجائے تمہارے رب کے آگے۔ اور اس لیے کہ شاید وہ ڈریں۔(معارف القرآن/سورہ اعراف)

اسی طرح حدیث شریف میں بھی ایک قصہ مذکورہے:

عن جابر قال قال رسول الله ﷺ أوحی الله إلی جبرائيل أن اقلب مدينة كذاوكذا بأهلها فقال يا رب إن فيهم عبدك فلاناًلم يعصك طرفة عين قال تعالیٰ اقلبها عليه وعليهم فإن  وجهه لم يتغير فیّ قط۔(رواه البيهقي في شعب الايمان)

ترجمہ:حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کی پوری آبای کے ساتھ الٹ دوجبرائیل علیہ السالام نے عرض کیا:خداوند  اس شہر میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے پل جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی اللہ تعالیٰ کاحکم ہواکہ اس بستی کواس بندے پر اور اسکے دوسرے باشندوں پر الٹ دو۔ کیوں کہ کبھی  ایک ساعت کے لیے بھی میری وجہ سے اس بندے کا چہرہ متغیر نہیں ہوا۔”

امت محمدیہ میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام  تو ہے لیکن تمغہ امتیا ز کی وجہ یہ ہے کہ یہ امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم کو اعلیٰ درجے یعنی قتال سے پوراکرتی ہے۔چنانچہ تفسیر کبیر میں ہے:

تفضيلهم علی الأمم الذين كانوا قبلهم إنما حصل لأجل أنهم يأمرون  بالمعروف وينهون عن المنكر بآكد الوجوه وهو القتال لأن الأمر بالمعروف قد يكون  بالقلب وباللسان وباليد وأقواها مايكون بالقتال لأنه إلقاء النفس في خطر القتل۔(تفسير كبير8/158)

ترجمہ: اس امت کی پچھلی امتوں پر فضیلت کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ امت امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر اعلی طریقے سے پوراکرتی ہے اور وہ قتال ہے کیوں کہ امر بالمعروف کبھی دل سے ہوتاہے کبھی زبنا سے اور کبھی ہاتھ سے۔ اور ان میں سے سب سے مضبوط وہ ہے   جو قتال کے ذریعے ہو۔ کیوںکہ  اس میں اپنے آپ کوقتل ہونے کے خطرے میں ڈالناہوتاہے۔

"بلغوعني ولوآيةً” میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر  نہیں بلکہ دعوت وتبلیغ کا ذکر ہے جو دین کا علیحدہ شعبہ ہے۔

بہر حال: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہو یا دعوت وتبلیغ ہو جو ان پر جتنا عمل کرے گا اتنی فضیلت حاصل کرے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved