• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جشن عید میلاد النبی ﷺ کے بارے میں علمائے دیوبند کا عقیدہ

استفتاء

جشن عید میلاد النبی کیا ہے؟ سورہ یونس آیت نمبر 58 کی عملی تفسیر ہے۔ تفصیلات پڑھنے کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’خطبات عید میلاد النبی ﷺ‘‘ صفحہ 63 تا 65 پڑھیں۔ مزید تفصیلات جاننے کے لیے عاملہ ابن تیمیہ کی کتاب ’’ اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ صفحہ 404 تا 406 اور علمائے دیوبند کا متفقہ جواب ہے سہارن پوری کی کتاب ’’المہند علی المفند‘‘ صفحہ 60 ملاحظہ فرمائیں۔ درج بالا علماء کے نزدیک عید میلاد جائز ہے۔ مگر آج کے علماء اپنے پسند کے عقائد لوگوں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ آج دلیل کی بات ہے کسی میں ہمت نہیں کہ انکار کرے اور صرف اعتراض پر اکتفا کرے۔

یہ ایک موبائل میسج ہے جو کہ ربیع الاول کے مہینہ میں اکثر لوگوں نے ایک دوسرے کو اور اکثر عام لوگوں کو جو کہ دیوبندی علماء سے عقیدت رکھتے ہیں بھیجا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ واقعی علماء دیوبند کی لکھی ہوئی ہیں؟ ان میں محفل میلاد منانا، چندے مانگنا، گلیاں بازار سجانا، جلوس نکالنا اور نعرے وغیرہ لگانا، اس طرح کے اور جو کام ہیں جو کہ ربیع الاول میں منائے جاتے ہیں ان کے متعلق علماء دیوبند نے کیا لکھا ہے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’ خطبات میلاد‘‘ اور ’’ المہند علی المفند‘‘ علمائے دیوبند کی کتابیں ہیں لیکن ان میں مروجہ محفل میلاد کو جائز نہیں کہا گیا۔ بلکہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے یہ خطبہ اصل میں محفل میلاد کی تردید کے لیے ہی کہا ہے۔ ملاحظہ ہو خطبات میلاد صفحہ 75 تا 90 اور یہی بات المہند علی المفند میں بھی کہی گئی ہے۔ ‘‘اقتضاء الصراط المستقیم’’علمائے دیوبند کی کتاب نہیں ہے اور اس میں ذکر کردہ صفحات پر ہمیں میلاد کے متعلق کوئی بات نہیں ملی اس لیے اس کی بابت کچھ نہیں کہہ سکتے۔

میلاد کے بارے میں علمائے دیوبند کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت کا ذکر پسندیدہ اور مستحب ہے اور علمائے دیوبند ذکر ولادت کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امور کے منکر ہیں جو اس کے ساتھ مل گئے ہیں مثلاً گلیاں بازار سجانا، گھروں میں بتیاں لگا کر اسراف کا مرتکب ہونا، مجالس میں مردوں عورتوں کا اختلاط وغیرہ۔ چنانچہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ المہند علی المفند میں لکھتے ہیں:

‘‘سیدنا رسول اللہ ﷺ کی ولادت شریف کا ذکر صحیح روایات سے ان اوقات میں جو عبادات واجبہ سے خالی ہوں ان کیفیات سے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان اہل قرون ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہو جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت محمد ﷺ نے دی ہے ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں ان آداب کے ساتھ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں جو کہ حضرت محمد ﷺ کے ارشاد ما أنا عليه و أصحابي کی مصداق ہے ان مجالس میں جو منکرات شرعیہ سے خالی ہوں سبب خیر و برکت ہے بشرطیکہ صدق نیت و اخلاص اور اس عقیدے سے کیا جاوے کہ یہ بھی منجملہ دیگر اذکا حسنہ کے ذکر حسن ہے کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ پس جب ایسا ہوگا توہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ دے گا۔۔۔ الخ اس سے معلوم ہوگیا کہ ہم ولادت شریفہ کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امور کے منکر ہیں جو اس کے ساتھ مل گئے ہیں جیسا کہ ہندوستان کے مولود کی مجلسوں میں آپ نے خود دیکھا ہے کہ واہیات موضوع روایات بیان ہوتی ہیں مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، چراغوں کے روشن کرنے اور دوسری آرائشوں میں فضول خرچی ہوتی ہے اور اس مجلس کو واجب سمجھ کر جو شامل نہ ہو اس پر طعن و تکفیر ہوتی ہے اس کے علاوہ اور منکرات شرعیہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی مجلس میلاد خالی ہو پس اگر مجلس مولود منکرات سے خالی ہو تو حاشا کہ ہم یوں کہیں کہ ذکر ولادت شریفہ ناجائز اور بدعت ہے۔’’ (المہند علی المفند: 65 تا 67)

اس سے معلوم ہوا کہ علمائے دیوبند کے نزدیک آپ ﷺ کی ولادت شریفہ کا تذکرہ جب کہ وہ ہر قسم کے منکرات اور غیر شرعی قیودات و رسومات سے خالی ہو نا صرف جائز نہیں بلکہ مستحب ہے۔ لیکن جہاں منکرات ہوں اور اس مستحب کو لازم سمجھا جاتا ہو اس کے جواز کا کوئی بھی انصاف پسند عالم قائل نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ مروجہ محفل میں یہ سب باتیں ہوتی ہیں اس لیے وہ ناجائز اور بدعت ہے۔ اس لیے فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں لکھا ہے:

’’ و عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال لا يجعلن أحدكم للشيطان شيئاً من صلاته يرى أنه حقاً عليه أن لا ينصرف إلا عن يمينه لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم كثيراً ينصرف عن يساره. ( مشكوة)

قال الطيبي و فيه أن من أصر على أمر مندوب و جعله عزماً و لم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر. ( مرقات شرح مشکوٰة)

اس روایت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور عبارت طیبی رحمہ اللہ سے معلو م ہوا کہ امر مندوب پر بھی اصرار کرنا اور اس کا التزام مثل واجبات کے کرنا اتباع شیطان ہے پس مجلس میلاد مروجہ میں جو کچھ التزام قیام و روشنی زائد از حاجت و اجتماع فساق و امارد و اشعار و غزل خوانی و روایات غیر صحیحہ کے پڑھنے وغیرہ کا ہے یہ سب شرعاً قبیح و منکر ہیں اور مرتکب امور مذکورہ کے حسب تصریح بالا متبع شیطان لعین کے ہیں۔ پس شرکت ایسی مجلس میں اور چندہ دینا اس میں درست نہیں ہے۔‘‘ ( عزیز الفتاویٰ: 1/ 142) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved