• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرآن کی آیت کو بطور اقتباس نقل کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور اہل علم حضرات اس شخص کے بارے میں جو کہ ایک کتاب تحریر کرتا ہے جس کا نام (پردے چاک) (جو صرف آپ بیتی ہے)  اس میں انہوں نے اپنے قتل کا ایک واقعہ تحری کیا ہےجو کے ان کے مخالفین نے بنایا تھا واقعہ تحریر کرنے کے بعد بالکل آخر میں انہوں نے قرآن کی ایک آیت ذکر کی ہے تشبھہ کے طور  پر کے  مخالفین نے مٹانے کی کوشش کی لیکن اللہ نے حفاظت کی ہے اس آیت کو واقع کے آخر میں ذکر کرنے پر چند لوگوں نے کہا کہ قرآن کی آیت کو تحریر کرنے کی وجہ سے گستاخِ رسول ﷺ بن گیا۔ واقعہ درج ذیل ہے۔

ہم دونوں(صاحب کتاب اور ان کا ایک ہم زلف)اسلام آباد سے چلے اور عصر کے وقت منڈی بہاؤالدین پہنچ گئے۔ وہاں ایک کارنے ہمیں وصول کیا اور منڈی سے تقریباً27 کلومیٹر ایک دیہات جس کا نام چرنڈ ہے لے گئے جانے کے ساتھ ہی انہوں نے ہمیں چائے دی جس میں نشہ آور دوا ملی ہوئی تھی ۔ دو تین گھونٹ لینے کے بعد غنودگی طاری ہونے لگی۔ راقم نے  مفتی عبدالحکیم صاحب سے کہا کہ چائے میں نشہ ہے وہ خاموش رہے ۔قدرتی بات کہ وہ سارا کپ پی گئے اور ذرا بھی نشہ نہ لگا۔ مغرب کے بعد حاجی مظہر اقبال نے کہا ہمارے  فش فارم میں چلتے ہیں۔ جہاں دفتر کے ساتھ ملحق باتھ روم ہے لہذا آپ رات وہاں گذاریں کھانا بھی وہاں لائیں گے۔ عشاء کے وقت ہمیں اس فش فارم تک پنچایاگیا جس کے ایک طرف بہت بڑی نہر تھی اور دوطرف فش فارم تھا جہاں پانی تھا راقم نے مفتی صاحب سے کہا کہ بھائی یہ کوئی منصوبہ ہے وہ اس کےجواب میں فرمانے لگے ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ہماری جان کا دشمن کوئی کیسے ہو سکتاہے۔ الغرض رات 45۔12 پر یکایک دروازے پر شور ہوا گالیاں بکی جارہی تھی کھولودروازہ کھولو ڈکیتی کرکے آئے ہو فوراً ہم  دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں 5آدمی ہاتھوں میں کلاشنکوفیں اور شراب سے بھری بولتیں تھیں ایک صاحب کے ہاتھ میں وائر لیس سیٹ تھا اس پر  بھی گالیوں کی برمار تھی۔ راقم نے بار بار اس سے کہا کہ ہم فلاں آدمی کے مہمان ہیں۔ لہذا ہمیں تنگ نہ کیا جائے ۔ خیر کیا ہوا آدھا گھنٹہ وہ بیٹھے، شراب خوب پی، ایک دوسرے کو گالیاں د ی ۔ اس عرصے میں ان کے ڈرائیور نے شراب نہیں پی وہ ٹکٹکی باند ھ کر میری طرف دیکھتا رہا۔ تقریباً30۔1 کے قریب بجلی چلی گئی یہ لوگ باہر نکلے اور آگے سے ہینڈل لگا دیا ان کے باہر جانے کے بعد کچھ دیر تک آواز آتی رہی۔آواز کا ختم ہونا ہی تھا کہ ہم نے دروازہ کھولا تو کھل گیا وہ ہینڈل کس نے کھولا رب جانے اور پھر بھاگنا شروع کیا نہ سمت معلوم نہ راستہ معلوم بالآخر دور پہنچ کر ایک خیرے کے قریب درخت کے سائے میں سانس لیا صبح ہوتے ہی منڈی بہاؤالدین روانہ ہوئے۔ مخالفین کا منصوبہ تھا جو کہ ڈھائی لاکھ روپے میں طے ہوا صاحب کے کئی دوسرے رفیق اس پروگرام میں تھے۔ ایک لاکھ کی رقم ادا کی جاچکی تھی اور قاتلوں کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ راقم کا بنک  بیلنس کافی ہے اور واردات مین ان کے سااتھ ایک آدمی کا طے تھا جب کے ہم دو تھے بس کیا ان سے جان چھوٹی اس کو قدرت اللہ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اسباب کا نام وہا ں لیا جاتا ہے جہاں کوئی سبب کسی درجے میں کام آئے یہاں تو کوئی بھی سبب بچنے کا نہ تھا سو فیصد موت ہی موت تھی اور موت بھی ایسی کہ لاش کا کوئی ٹکڑا بھی اہل خانہ کو نہیں مل سکتاتھا  صاحب تو چاہتے  تھے کہ مٹ جائے۔

يريدون أن يطفؤنور الله  مگر قدرت کا کیا کہنا  والله متم نوره

برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

1)اس واقعہ میں قرآن کی آیت ذکر کی گئی ہے اس سے گستاخ رسول ﷺ ہونے کا کوئی ثبوت مل رہا ہے یا کہ نہیں اگر ہے تو کیسے اور اس آیت کی تفسیر کیا ہے؟

2) اور یہ بتائیں کہ جس شخص نے گستاخ رسول ﷺ کا الزام لگایا ہے اور قرآن کی اس آیت کی غلط تفسیر بیان کی ہے اس شخص کا شریعت میں کیا حکم ہے اور کیا  یہ خود گستاخ رسول ﷺ نہیں ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

واضح رہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کو اقتباس اور تشبیہ کے طور پر پیش کرنا جائز ہے علماء اور بزرگان دین کے اقوال وتحریرات سے اس کا ثبوت ملتاہے۔ اس کا معنی ہے اخذ کرنا ،چننا،چنا ہوا کلام،قرآن کریم سے اقتباس کا مطلب ہے کہ اپنے مافی الضمیر کو قرآن کے الفاظ میں بیان کرنا جیسے آیت کریمہ”إن اريد إلّا الإصلاح مااستطعت وما توفيقي إلّا بالله” پيغمبر  کا قول ہے لیکن محشی نورالایضاح نے طور اقتباس اپنے کلام میں خطبہ کے آخر میں  ذکرکیا  ہے ۔ ہاں! قرآن کریم کا غلط مطلب اور من گڑھت تفسیر بیان کرنا نا جائز ہے۔

سوال  میں مذکورہ واقعہ کے آڑمیں آیت لکھنے سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ مؤلف کا مقصد صرف اور صرف اپنی حفاظت اور مخالفین کے منصوبہ  قتل ناکام ہونے پر اللہ تعالیٰ کا فضل بیان کرنا ہے کہ جس طرح دین اسلام کے مخالفین یہود ونصاریٰ نے دین اسلام کو مٹانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی حفاظت فرمائی ۔ اسی طرح میرے مخالفین نے تو مجھے قتل کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بچایا اور میری حفاظت فرمائی۔ لہذا صرف بطور اقتباس اس آیت کے لکھنے کی وجہ سے اس شخص کو گستاخ رسول ﷺ  کہنا بالکل غلط اور ناجائز ہے۔

قولهم أن تضع الحرب أوزارها اقتباس من القرآن ،وبه يستدل علی جوازه عندنا۔ (ردالمحتار مطلب الاقتباس من القرآن جائز عندنا :ص152ج4)

جمعتها إفادة لطلبة العلوم الدينيّة لتكفر سيّاٰتي وتقوم مقام حسناتي "وإن أريد إلّا الاصلاح مااستطعت وما توفيقي إلّا بالله۔(نورالايضاح ص3)واللہ تعالیٰ اعلم

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ اقتباس مناسب نہیں کیونکہ مماثلت جزوی ہے۔ اگرچہ اس کو گستاخی پر محمول کرنا بھی درست نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved