• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیمار نہ ہونا اللہ کی ناراضگی کی علامت ہے ( الحدیث )

استفتاء

1۔ کیا یہ حدیث ہے کہ” جو شخص کبھی بیمار نہ ہوا ہو تو اللہ پاک اس سے ناراض ہوتے ہیں”۔ اور ہمیشہ کی تندرستی اللہ کی ناراضگی  کی علامت ہے؟ مفصل بتادیجئے کہ ایک تندرست ، صحت مند بندہء خدا کو ذہنی الجھن سے نکالنا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مشکوٰة شریف باب عیادة المریض و ثواب المرض ، فصل ثانی میں حدیث نمبر 1571 اس مضمون کی ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:

” ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے بیماری کا تذکرہ کیا  اور فرمایا جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے عافیت عطا فرماتے ہیں تو یہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے  اور آئندہ کے لیے نصیحت ہو جاتی ہے ، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر تندرست ہوتا ہے تو اس کی حالت بس اونٹ کی سی ہے جسے اس کے مالکوں نے باندھ دیا تھا پھر چھوڑ دیا۔ اور اسے کچھ پتا نہیں کہ کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑا؟ اس پر ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ !  بیماری کیا ہوتی  ہے؟ بخدا میں تو کبھی بھی بیمار نہیں ہوا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” ہم سے دور ہو ، تو ہم میں سے  نہیں”۔

اس حدیث سے خیال ہو سکتا ہے کہ جو شخص کبھی بھی بیمار نہ ہو اور اس پر کوئی مصیبت جان و مال میں نہ آئے تو اس کی دینی حالت اچھی نہیں اور اس کو  ڈھیل ملی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ مصائب اور امراض کا آنا ایک تکوینی  معاملہ ہے جو اللہ کے کرنے سے ہوتا ہے۔ س پر بندے کا بس نہیں۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ بندہ اپنے آپ کو خود مصیبت میں اور بیماری کے سبب میں مبتلا کرے، لہذ بندہ تشریعی امور یعنی دینی احکام جو بندے کے بس میں ہیں، ان کی فکر کرے او راللہ  تعالیٰ سے صحت و عافیت مانگتا رہے۔ مصائب سے بچانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عافیت کا معاملہ ہے جو بہت بڑی نعمت ہے اس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ امراض  اور مصائب سے بچاؤ کی دعائیں اور عافیت کا سوال تو خود نبی ﷺ سے منقول ہے۔ اور جس شخص کو نبی  نے فرمایا تھا کہ ” تم ہم میں سے نہیں” تو وہ اس کے حسب حال تھا۔ یعنی یہ کہ وہ منافق ہوگا۔ و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved