• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تارک نماز کے بارے میں وارد احادیث

استفتاء

سوالنامہ کے ساتھ منسلک پمفلٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس میں مندرج احادیث اور ان سے نکالا گیا نتیجہ اور حکم مستند ہے یا نہیں؟

’’ نماز پڑھنا کیوں ضروری ہے؟؟؟ ‘‘

کیا نماز کے بغیر بخشش ہوجائے گی؟ کیا نماز نہ پڑھنے کی معافی مل جائے گی؟ اگر نماز کے بغیر بخشش نہ ملی، معافی نہ ملی تو پھر آپ کے سارے نیک اعمال جو زندگی میں آپ نے کیے آپ کے کس کام آئیں گے؟؟ سب چھوٹے بڑے نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ نیک اعمال جیسے خیرات کرنا، غریبوں مسکینوں کی ضرورتیں پوری کرنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، غریب کی شادی کا انتظام کرنا، یتیموں کا خیال رکھنا، بے سہاروں کی مدد کرنا،کوئی مسجد بنادینا، کوئی ہسپتال بنا دینا، وغیرہ لیکن نماز نہ پڑھنا۔ یاد رکھیں یہ تمام نیکیاں نفلی ہیں۔ یہ اچھی طرح سے جان لیں جب تک فرض ادا نہیں کرتے نفل قبول نہیں ہوتے۔ نماز فرضوں میں سرفہرست ہےیعنی نماز اولین فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ فرض ادا کیے بغیر کوئی نفلی نیک کام کرنا قبول نہیں ہوگا۔ فرض نماز ادا نہ کریں اور نفل پڑھتے رہیں، نفل قبول  نہ ہوں گے۔ بے نمازی کے متعلق حضورﷺ کے اس فرمان پر غور کریں ’’ كل عمل يعمله لا ياجره الله عليه ‘‘ ترجمہ: تمام (نیک) اعمال کا اجر اللہ ہٹا دیتے ہیں۔ تو جان لیں بے نمازی کے نیک اعمال کا اجر ضائع ہوجاتا ہے۔ لہذا نیک اعمال قبول ہونے یا نہ ہونے کا دارو مدار نماز پر ہے۔

ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ’’ سب سے پہلے حشر کے دن بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے اگر نماز صحیح نکل آئی تو باقی اعمال بھی درست نکلیں گے اگر نماز خراب نکلی تو باقی اعمال بھی خراب نکلیں گے۔‘‘ اس حدیث سے بھی یہ جان لیں کہ نیک اعمال کا تعلق نماز سے ہے۔ اگر نماز خراب نکلی تو باقی کے نیک اعمال درست نہ مانے جائیں گے۔ یعنی بے نمازی کے نیک اعمال کا اجر نہ دیا جائے گا۔

اچھی طرح سے غور کریں کہ اگر نماز پڑھنی نہیں اور اس وجہ سے کی نیک کام کا اجر ملنا نہیں تو پھر بخشش کس عمل پر ہوگی ؟؟؟ یہ مسئلہ جاننے کے لیے یہ کتاب ’’ نماز پڑھنا کیوں ضروری ہے ‘‘ پڑھیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز دین کا انتہائی اہم رکن ہے اور اسے قائم کرنے کے بہت سے فضائل ہیں اور اسی طرح اسے چھوڑنے کی بہت زیادہ وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز کے بغیر کسی شخص کی بخشش ہی نہیں ہوگی۔ کیونکہ بخشش و نجات کا اصل مدار ایمان پر ہے اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ نماز کے بغیر دیگر اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ کیونکہ قران پاک میں اللہ تعالیٰ کا صاف ارشاد ہے ’’ فمن يعمل مثقال ذرة … ‘‘کہ جو شخص ایک ذرہ بھر بھی خیر کا کام کرے گا وہ اس کو ( یعنی اس اجر کو قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور اسی طرح حدیث میں ہے کہ ایک فاحشہ عورت کی بخشش کتے کو پانی پلانے پر ہوگئی۔ اور اسی طرح تفسیر قرطبی میں ہے: و العقيدة أن السيئات لا تبطل الحسنات. (3/ 311) یعنی اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ برائیاں نیکیوں کو ختم نہیں کرتیں۔ لہذا پمفلٹ میں ذکر کردہ جن احادیث کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے ان کا کوئی مناسب مطلب بیان کیا جائے گا۔

اس لیے ہمارے خیال میں پہلی یعنی ’’ كل عمل يعمله لا ياجره الله عليه ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے دیگر اعمال کا وہ اجر جو اضافی ہے ( یعنی جو اجر اللہ تعالیٰ نے دیگر اعمال پر ان کے اصل اجر کے علاوہ اپنے فضل سے عطا کرنا تھا) وہ مٹا دیا جاتا ہے ( کیونکہ نماز چھوڑنے کی وجہ سے اب یہ شخص اجر اضافی کا حقدار نہیں رہا اور یہ بھی ایک بڑی محرومی ہے)۔ اسی طرح دوسری حدیث یعنی اگر نماز خراب نکلی تو دیگر اعمال بھی خراب نکلیں گے۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ عموماً جو شخص نماز کو درست کرکے پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا وہ دیگر اعمال کو بھی صحیح طریقے پر ادا کرنے میں کوتاہی کرتا ہے۔ اس لیے اس کے دیگر اعمال بھی خراب نکلیں گے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved