- فتوی نمبر: 5-220
- تاریخ: 17 نومبر 2012
استفتاء
عرض ہے کہ یونیورسٹی مارکیٹ کے ایک دکاندار تاج محمد خان کا گذشتہ دنوں انتقال ہوا۔ انتقال سے قبل تقریباً تین ماہ پہلے ایک وصیت نامہ لکھوایا جس کی کاپی ساتھ منسلک ہے۔ جس کے مطابق مرحوم نے تین لاکھ روپے دینی مدرسے میں دیدینے کی وصیت کی ہے جبکہ مرحوم کے کسی بھی شرعی وارث کا کوئی علم نہیں ہے اور علم حاصل ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ مرحوم کے انتقال کے وقت مرحوم کے تین لاکھ روپے قومی بچت سکیم میں موجود تھے اور اس کے علاوہ ایک موٹر سائیکل اور ایک عدد اے سی بھی موجود ہے۔ اس وصیت پر عمل کرنے سے پہلے شرعی اعتبار سے قابل غور بات یہ ہے کہ مرحوم نے تقریبا ایک سال قبل عبد الغفور سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے مطابق اس نے دکان سے دستبرداری کے عوض چار لاکھ روپے عبد الغفور سے وصول کیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ سٹور میں موجود سامان کی قیمت کے عوض 45 ہزار روپے الگ سے وصول کیے تھے۔ اور اس رقم میں سے یونیورسٹی کے ملازم محمد منیر کے پاس تین لاکھ روپے امانت کے طور پر رکھوا دیے جیسا کہ وصیت نامہ میں درج ہے اب اگر مرحوم کے لیے کرایہ کی دکان سے دستبرداری کے عوض چار لاکھ روپے لینا شرعاً جائز نہیں تھا تو اس صورت میں وصیت کا کیا حکم ہوگا؟ آیا وصیت نامہ میں جن افراد کا نام لکھا ہوا ہے ان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ یہ تین لاکھ روپے اور مرحوم کے دیگر ترکہ کو ساتھ ملاکر مجموعی طور پر چار لاکھ عبد الغفور کو واپس کریں یا اس معاملہ کے جواز اور عدم جواز کا تعلق مرحوم اور عبد الغفور کے ساتھ ہی ہے اور وصیت نامہ میں نامزد کردہ افراد کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اس رقم کو کسی دینی ادارے میں دیگر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں ۔ اس مجموعی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ تاج محمد خان نے اس دکان میں اپنی طرف سے کچھ تعمیری اضافہ اور شیشے اور ریکس کا اضافہ بھی کیا ہوا تھا اس لیے یہ رقم عبد الغفور کو واپس نہ کیا جائے بلکہ تاج محمد کی وصیت کے مطابق کسی دینی مدرسے میں دے دی جائے
© Copyright 2024, All Rights Reserved