- فتوی نمبر: 3-307
- تاریخ: 31 اکتوبر 2010
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
میری جائیداد میں ایک رہائشی مکان۔۔۔۔ جو الحسنا ت منزل کا نام دیا گیا ہے۔ 6۔ 3 ۔24 کو محکمہ آبادی کی مقررہ قیمت ادا کر کے مستقل طور پرا پنے نام منتقل کر دیا اور میں اس کا قانونی ۔۔۔۔ کر دیا گیا۔
میرےچار بیٹے ہیں، تین نے اپنے اپنے مکان بنوالیے ہیں۔ چھوٹے بیٹے حافظ محمد شریف اس مذکورہ مکان میں رہائش پذیر ہیں انہوں نے کوئی مکان نہیں بنایا ۔ اب میں یہ مکان**** کے نام کا ملک ہبہ کرتا ہوں۔
حضرت درج بالا عبارت والد صاحبؒ کی تحریر بعنوان ” ہبہ نامہ” سے نقل کی گئی ہے۔ حضرت والد صاحب *** مورخہ *** کو انتقال کر گئے جبکہ وہ میرے عزی بھائی *** کے ہاں مقیم تھے۔
یہ ہبہ نامہ انتقال کے تقریباً ڈیڑھ سال لکھا گیا تھا۔ جبکہ آپ مکمل طور پر بقائمی ہوش و حواس تھے۔ بلکہ آخری ایک دو روز پہلے تک بھی ٹھیک رہے ماسوائے۔۔۔چلنا پھرنا مشکل ہوگیا مگر نمازیں وغیرہ بیٹھ کر ادا کرتے رہے۔ تلاوت ۔۔۔۔کے خط کتابت بھی جاری رکھی۔ان حقائق کی روشنی میں بندہ عاصی یہ شرعی فتویٰ جاننا چاہتا ہے کہ اس ہبہ نامہ کی روشنی میں مکان مذکورہ کی شرعی و قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا شرعی لحاظ سے اس ہبہ نامہ کے بعد میرے تین بھائیوں اورایک ہمشیرہ ( شادی شدہ ) کا بھی کوئی حصہ ہے یا نہیں؟
مکان ہذا کا شرعی اعتبار سے مالک کون ہوگا؟ اور اگر میں اسے اپنے استعمال میں رکھوں ( بمطابق تحریر بالا) تو کیا کسی کی حق تلفی تو نہ ہو گی؟ اگر کسی اور کا اس میں شرعی حق بنتا ہے۔ تو اس کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟ شرعی نقطہ کے لحاظ سےراہنمائی فرمائیں۔
یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مکان مذکورہ بوسیدہ ہو چکا تھا اس لیے میں ( زیر دستخطی ) والد صاحب کی اجازت ا ور بھائیوں کے مشورہ سے 2000ء میں پرانی تمام عمارت گرا کے سارا مکان نئے سرے سے اور نئے تقاضوں کے مطابق تعمیر کرایا جس پر میرے قریباً 10 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ بندہ بہت گناہگار ہے اور دوسروں کا رائی برابر بھی حق دبا کر اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا۔ اس لیے آنجناب کی راہنمائی ازروئے شریعت درکار ہے۔ واپسی لفافہ مع پتہ لف ہذا ہے درخواست ہے کہ اولین فرصت ترجیحی طور پر راہنمائی فرمائیں تاکہ وقت موعودہ سے قبل میں شریعت پر عمل کر سکوں۔
یہ بھی عرض کردوں کہ اس مسئلے میں میرا بھائیوں سے کوئی جھگڑا یا قضیہ نہیں۔ میرے بھائی نہایت دیندار اور خوشحال ہیں۔ تاہم شریعت ہر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
نوٹ: ہبہ نامہ کی تحریر کے وقت والد صاحب دوسرے بھائیوں کے ہاں رہ رہے تھے ہبہ کردہ مکان میں نہیں تھے۔ اور اس وقت میرے علم میں نہیں تھا کہ مجھے یہ کیا ہے یا نہیں؟ وفات کے بعد بھائیوں نے مجھے یہ ہبہ نامہ دیا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق مذکورہ مکان جو آپ والد نے آپ کو ہبہ کیا ہے، دوسرے بھائی اور بہن بھی آپ کے والد کے ہبہ پر راضی ہیں تو بطریق اولیٰ مکان آپ کی ملکیت ہوگا۔
و في الشامية: و ركنها ( الهبة ) هو الإيجاب والقبول. قوله والقبول فيه خلاف ففي القهستاني و تصح الهبة كوهبت و فيه دلالة على أن القبول ليس بركن كما أشار إليه في الخلاصة و غيرها. وذكر الكرماني أن الإيجاب في الهبة عقد تام. و في المبسوط أن القبض كالقبول في البيع قال الرافعي: يدل له ما في المنيع عن البدائع: ركن الهبة الإيجاب من الواهب. فأما القبول من الموهوب فليس بركن استحساناً و القياس أن يكون ركناً و به قال زفر. (459/ 8).
و ملك ( بالقبول ) بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له و لو بغصب أو أمانة. والأص أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر وإذا تغائرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه. (شامی، 579/ 8)۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved