- فتوی نمبر: 5-382
- تاریخ: 07 مئی 2013
استفتاء
میری شادی کو ایک عرصہ ہوگیا ہے۔ کوئی اولاد نہیں ہوئی اور نہ ہی ہونے کی امید ہے۔ اب ہم نے سوچا ہے کہ کوئی بچہ لے کر پال لیں لیکن ہم اپنے کسی رشتے دار یا جاننے والے سے بچہ لینا نہیں چاہتے بلکہ اس کے بجائے کسی ایسی جگہ سے بچہ لیں گے جہاں بے باپ کے بچے ہوتے ہیں۔ پھر اس بچے کو پالیں گے۔ اس پر منظر میں درج ذیل سوالات کے جواب مطلوب ہے:
۱۔ کیا ایسا بچہ لے کر پالنا جائز ہے؟
۲۔ اس بچے کے محرم ہونے اور پردے کے مسائل کیا ہوں گے؟ اگر ہم یعنی میری بیوی اس بچے کو چھاتی سے لگا کر اپنا دودھ والا بیٹا بنالے تو کیا ایسا ممکن ہے یا علاج معالجے سے دودھ آجائے اور وہ بچہ اسے پی لے تو کیا وہ بچہ ہمارا محرم بن جائے گا؟ کتنا دودھ پینا ضروری ہے؟
۳۔ ایسے بچے کو کیا ہم اپنا بچہ ظاہر کرسکتے ہیں؟
۴۔ ایسے بچے کی وراثت کا کیا حکم ہوگا؟ اگر شرعی اعتبار سے وارث نہ ہو تو کیا کیا جائے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ جائز ہے۔
۲۔ اگر آپ کی بیوی کا کسی طریقے یا علاج سے دودھ آجائے یا کم از کم زرد رنگ کا پانی آجائے تو وہ پلانے سے اس بچے سے دودھ کا رشتہ ثابت ہوجائے گا اور وہ محرم بھی بن جائے گا، لیکن اس کے لیے محض ایک قطرہ کافی نہیں بلکہ اتنا ہو کہ اطمینان ہوجائے کہ دودھ بچے کے پیٹ میں چلا گیا ہوگا۔
۳۔ ایسے بچے کو اپنا بچہ ظاہر نہیں کرسکتے اس کے بجائے سرپرست لکھوا سکتے ہیں۔
۴۔ مذکورہ بچہ شرعی اعتبار سے آپ کا وارث نہیں ہوگا۔ اس کا حل یہ ہے کہ اسے جو کچھ دینا ہے زندگی میں تحفہ کے طور پر دیدیا جائے۔ یا ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت ہوسکتی ہے۔
دخل في فم الصبي مائع لونه أصفر تثبت حرمة الرضاع لأنه لبن تغير لونه. ( هنديه: 1/ 344)
لو نزل للبكر ماء لونه أصفر لا يثبت من إرضاعه تحريم. ( هنديه: أيضاً)
المراد بها ( أي البكر) التي لم تجامع قط بنكاح أو سفاح. ( شامى: ج 3)
وضاحت: سائل کی بیوی چونکہ باکرہ نہیں ہے اس لیے اس کے دودھ اور زرد پانی دونوں سے رضاعت کے ثبوت کا قول کیا گیا ہے۔ لیکن یہ ثبوت صرف عورت تک محدود رہے گا۔ اس کی وجہ سے خاوند سے رضاعت کا رشتہ ثابت نہیں ہوگا۔ کیونکہ خاوند سے رضاعت کے ثبوت کے لیے ‘‘لبن الفحل’’ ہونا ضروری ہے اور یہاں درج ذیل عبارات کی رو سے لبن الفحل نہیں بنتا۔
و لبن الفحل يتعلق به التحريم. (هدايه)
المراد به اللبن الذي نزل من المرأة بسبب … ولادتها من رجل زوج أو سيد … قيدنا بكونه نزل بسبب ولادتها منه لأنه لو تزوج امرأة و لم تلد من قط و نزل لها لبن و أرضعت به ولداً لا يكون الزوج أباً للولد لأنه ليس ابنه لأن نسبة الولد إليه بسبب الولادة منه فإذا انتفت ( الولادة) انتفت النسبة فكان كلبن البكر. (بحر: 3/ 394)
لیکن چونکہ بچے کی رضاعی ماں اس مرد کے نکاح میں موجود ہے چنانچہ اگر دودھ پینے والی بچی ہو تو وہ اس خاوند کے لیے ربیبہ بن جائے گی اور اگر لڑکا ہوگا تو محرمیت کا مسئلہ ویسے ہی نہیں ہوگا۔
لو كان لبنها من غيره بأن تزوجت برجل و هي ذات لبن لآخر قبله فأرضعت صبية فإنها ربيبة للثاني بنت للأول. ( بحر: 3/ 394) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved