• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

بلا وجہ تنسیخ نکاح

  • فتوی نمبر: 1-237
  • تاریخ: 11 جولائی 2007

استفتاء

ایک شخص*** نے اپنے لڑکے کا نکاح بکر کی ایک لڑکی سے کروایا۔ نکاح اس وقت ہوا جس وقت لڑکا اور لڑکی دونوں نابالغ تھے۔ اور نکاح خود اولیاء نے کیا۔ مہر بھی مقرر ہوچکا تھا اور مہر کا ایک حصہ وصول بھی کیا جاچکا تھا لیکن رخصتی نہ ہوئی تھی۔

اب ایک عرصہ گذرنے کے بعد لڑکی کی والدہ اور والد بغیر کسی عذر شرعی کے اس رشتے کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اور تنسیخ نکاح عدالت سے کروانا چاہتے ہیں۔ امر مطلوب یہ ہے کہ اس صورت میں عدالت کا فسخ نکاح قابل قبول ہوگا؟

وضاحت مطلوب ہے: سائل کا عذر شرعی اور غیر شرعی سے کیا مراد ہے؟ اور عدالت میں کیا وجہ ذکر کریں گے؟

جواب: لڑکے کا والد امام مسجد اور خطیب ہے۔ لڑکی کا والد عدالت میں یہ کہہ کر نکاح فسخ کروانا چاہتا ہے کہ لڑکے کے والد کے علاقہ غیر میں تعلقات ہیں اور ہماری لڑکی اغوا کر کے ان کے حوالے کر دے گا۔ جبکہ دونوں خاندان کافی عرصہ سے ایک ہی علاقے میں رہ رہے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نہ تو کوئی شرعی ٹھوس وجہ مذکور ہے کہ جس کی وجہ سے عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ کرے اور اگر کوئی وجہ ہو بھی تو عام طور سے عدالت فسخ نکاح کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ یکطرفہ جبری خلع کا فیصلہ کرتی ہے جو شریعت کی رو سے غیر معتبر ہوتا ہے۔ اس لیے لڑکی کا والد اگر طلاق لینا ہی چاہتا ہے تو لڑکے سے طلاق لے اگرچہ کچھ دے دلا کر ہی ہو۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved